وزیرِ اعظم عمران خان کے واشنگٹن میں صحافتی آزادی سے متعلق بیان پر پاکستان میں اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے پیر کو اپنے ٹوئٹ میں عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ نیازی صاحب نے پاکستانی میڈیا کو آزاد قرار دے کر خود کو واضح طور پر جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ عمران خان نے میڈیا کو بدترین سینسرشپ میں دھکیل دیا ہے۔ انہوں نے وہ کیا ہے جو ڈکٹیٹر بھی نہیں کر سکے تھے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ عمران خان نواز شریف کے خوف کا شکار ہیں۔ ان میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ نواز شریف سے ہٹ کر دوسرے مسائل کے بارے میں کچھ سوچ سکیں۔ ان کی یوٹرن کی صلاحیت واشنگٹن میں کھل کر نظر آئی۔
مسلم لیگ کے صدر کا کہنا تھا کہ کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر غائب تھا۔ کشمیر تنازع کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے کشمیریوں کی خواہش کے مطابق ہوگا۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی وزیرِ اعظم عمران خان پر کھل کر تنقید کی۔
پیر کو اپنے ٹوئٹ میں مریم نواز نے کہا کہ آپ کو امریکہ جا کر اپنے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں تھی، وہ آپ کے بارے میں پہلے ہی جانتے ہیں کہ آپ کٹھ پتلی ہیں جو اپنی بیمار طاقت قائم رکھنے کے لیے کسی بھی قوت اور مطالبے کے سامنے جھک جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’اپنی کہی ہوئی ہر بات سے پیچھے ہٹنے سے لے کر شہریوں کو آزادی دینے تک آپ ایک شرمندگی ہیں‘‘۔
مریم نواز یہ بھی نے کہا کہ ’’اب آئیں۔ مجھ پر مزید کیسز بنائیں۔ میری سیاسی ریلیوں پر پابندی لگا کر دنیا کو بتا دیں کہ آپ کتنے ڈرے ہوئے ہیں۔ آپ نے آزادی صحافت کے بارے میں وائٹ ہاؤس میں جھوٹ کیوں بولا؟‘‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گِل نے منگل کو اپنے ایک ٹوئٹ میں پاکستان کے ایک صحافی رؤف کلاسرا کی ایک فوٹو شاپ تصویر پوسٹ کی اور ان پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ رؤف کلاسرا کی موجودگی تو ہر جگہ ہے۔
شہباز گِل نے ٹوئٹ میں یہ بھی لکھا کہ انہوں نے یہ بات ازراہ تفنن کی ہے۔
وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق نے وائس آف امریکہ کے ریڈیو پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میڈیا سنسنی خیزی سے گریز کرے اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرے تو مشکلات ہی پیدا نہ ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’وقت آ گیا ہے کہ صحافی خود ایک ضابطہ اخلاق بنائیں۔ ہم اس کو مشاورت کے بعد قانون سازی کا حصہ بنا دیں گے‘‘۔
واضح رہے کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر قدغن کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد نے گزشتہ دنوں میں میڈیا پر غیر اعلانیہ پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے معاملے پر عدالت سے رُجوع کا اعلان کیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں نے میڈیا سینسرشپ کو اظہار رائے پر قدغن کی بدترین صورت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اپوزیشن اتحاد کا موقف ہے کہ آزادی اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کی ضمانت آئین پاکستان میں دی گئی ہے۔ موجودہ حکومت میڈیا سینسرشپ کے ذریعے شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر رہی ہے، جس کی کسی جمہوری ملک میں گنجائش نہیں ہے۔
حکومت کی جانب سے میڈیا سینسرشپ کی تردید کی جا رہی ہے۔ وزیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان کہہ چکی ہیں کہ ملک میں میڈیا مکمل آزاد ہے۔ البتہ، قومی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے میڈیا کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں میڈیا پر قدغنوں کے خلاف صحافتی تنظیمیں بھی سراپا احتجاج ہیں اور گزشتہ ہفتے ملک کی سب سے بڑی صحافتی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے یوم سیاہ بھی منایا تھا۔
عمران خان کے دورہ امریکہ سے قبل پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ کے چینل جیو نیوز کی کیبل نیٹ ورک پر نشریات غیر اعلانیہ طور پر بند کرا دی گئی تھیں جو ملک کے کچھ علاقوں میں اب تک بند ہیں۔