رسائی کے لنکس

آصف زرداری کا انٹرویو دوران نشریات کس نے رکوایا؟


پاکستان میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا جیو نیوز پر انٹرویو چلنے کے چند لمحات کے بعد بند کروا دیا گیا ہے۔ پروگرام کے میزبان حامد میر کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے یہ انٹرویو رکوایا ہے، ان میں اتنی ہمت نہیں کہ کھلے عام تسلیم کریں کہ انہوں نے یہ انٹرویو رکوایا ہے۔

یہ انٹرویو آصف علی زرداری کی نیب حراست میں پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطہ میں سلیم مانڈوی والا کے چیمبر میں موبائل فونز پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ گزشتہ حکومت میں اسپیکر قومی اسمبلی کے جاری احکامات کے مطابق ماسوائے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کے، کسی نجی چینل کو کیمرہ قومی اسمبلی کی عمارت کے اندر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔

حامد میر کا یہ پروگرام پاکستانی وقت کے مطابق رات آٹھ بجے نشر ہونا شروع ہوا لیکن یہ انٹرویو کے چلنے کے کچھ ہی دیر بعد یہ پروگرام روک دیا گیا اور جیو نیوز کی سکرین پر ٹکرز کے ذریعے باضابطہ طور پر آگاہ کیا گیا کہ آصف علی زرداری کا یہ خصوصی انٹرویو آج نہیں دکھایا جا رہا۔

پروگرام کے میزبان حامد میر نے اپنے ناظرین سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے ناظرین سے معذرت خواہ ہوں کہ یہ انٹرویو نشر ہونا شروع ہوا اور روک دیا گیا۔ اس حوالے سے میں تفصیلات سے جلد آگاہ کروں گا، لیکن یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ کس نے یہ انٹرویو رکوایا ہے۔ ہم ایک آزاد ملک میں نہیں رہتے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ انٹرویو روکے جانے پر کہا کہ ‏‏سلیکٹڈ حکومت، سلیکٹڈ آوازیں سننا چاہتی ہے۔ آصف علی زرداری کا انٹرویو سینسر کر دیا گیا۔ اس انٹرویو کو آن ائیر ہونے کے بعد روکا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ‏ضیا، مشرف اور نئے پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ‏یہ پاکستان وہ ملک نہیں، جس کا قائد اعظم نے وعدہ کیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت آصف علی زرداری کا انٹرویو روکا گیا، عین اسی وقت نجی نیوز چینل اے آر وائی پر وزیر اعظم عمران خان کا دو گھنٹوں پر محیط انٹرویو نشر کیا جا رہا تھا۔

حامد میر کے کیپٹل ٹاک میں دیے جانے والے انٹرویو کا جو پرومو جاری کیا گیا تھا اس میں آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ لندن میں ایک تفتیش چل رہی ہے، جس میں وزیر اعظم عمران خان اور ان کے سلیکٹ کرنے والوں کا بہت بڑا اسکینڈل سامنے آنے والا ہے۔ یہ پروگرام نشر نہ ہونے کی وجہ سے اس اسکینڈل کے بارے میں مزید معلومات سامنے نہیں آ سکیں۔

انٹرویو روکے جانے پر سوشل میڈیا میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ نیب حراست میں موجود شخص کیسے میڈیا کو انٹرویو دے سکتا ہے۔

صحافی رؤف کلاسرا نے ٹوئٹ کی کہ کسی بھی ملزم کو، جو منی لانڈرنگ، جعلی اکاؤنٹس اور دھوکہ دہی کے کیس میں ملوث ہو، اسے موقع دیا جائے کہ وہ ایک گھنٹے تک ٹی وی پر اپنی صفائی بیان کرے، ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے کہ نیب کی حراست میں موجود شخص ٹی وی پر آ کر جمہوریت اور شفافیت پر لیکچر دیتا ہے۔

حامد میر کی طرف سے یہ کہنے پر کہ ہم ایک آزاد ملک میں نہیں رہتے، رؤف کلاسرا نے کہا کہ “سب حکمران اقتدار ملتے فرعون بن جاتے ہیں۔ جب زرداری صدر تھا، اس نے اپنی وزیر شیری رحمٰن کو کہا کہ جیو ٹی وی اور دیگر میڈیا کو ٹائٹ کرو۔ انکار پر شیری کو وزارت چھوڑنی پڑی۔ اس طرح جب زرداری کے درباریوں نے آئی بی خفیہ فنڈز سے 40 کروڑ نکال کر صحافی خریدنے کا پراجیکٹ لانچ کیا تھا۔

کیا پروڈکشن آرڈر پر باہر آ کر ٹیلیویژن انٹرویو دیا جا سکتا ہے؟

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا کوئی شخص پروڈکشن آرڈر پر ہو کر میڈیا کو انٹرویوز دے سکتا ہے یا نہیں۔ اسمبلی قواعد کے مطابق جب کوئی شخص پروڈکشن آرڈر پر پارلیمنٹ ہاؤس آتا ہے تو اس کے بعد وہ ایک ممبر پارلیمنٹ ہے، جو پارلیمان کی حدود میں آزاد شہری شمار ہوتا ہے، اس پر نیب قوانین یا کسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے احکامات کا اطلاق نہیں ہوتا۔

آصف علی زرداری کے انٹرویو کے روکے جانے پر بحث تو ہو رہی ہے، لیکن یہ انٹرویو رکوایا کس نے؟ یہ نہیں بتایا جا رہا کیونکہ اگرچہ کسی بھی پروگرام کو رکوانے کا اختیار صرف پیمرا کے پاس ہے، لیکن ملکی سلامتی سے متعلق بعض ادارے ماضی میں مبینہ طور پر ایسی نشریات رکواتے رہے ہیں اس بار بھی حامد میر کے ٹویٹ سے یہ واضح نہیں کہ ایسا کس کے کہنے پر کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG