پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پارلیمینٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں عددی اکثریت کے باعث وہ آسانی سے صادق سنجرانی کی جگہ نیا چیئرمین سینیٹ منتخب کروانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ تاہم، حکومت نے اپوزیشن کے ان دعووں کو مسترد کیا ہے۔
سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانے کے لئے مشترکہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی جس کے بعد حکومتی اتحاد نے بھی ڈپٹی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی ہوئی ہے۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف ان تحاریک عدم اعتماد پر یکم اگست کو خفیہ رائے شماری ہو گی۔
چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا فیصلہ اپوزیشن جماعتوں کی 26 جون کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں کیا گیا تھا۔
موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی کو پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے 2018 میں مشترکہ طور پر چیئرمین سینیٹ منتخب کروایا تھا۔ تاہم، اب پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر انہیں ہٹانے کے لیے سرگرم ہے۔
سینیٹ میں اپوزیشن کی برتری اور حکومتی دعوے
پاکستان کے ایوان بالا کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے پاس اکثریت ہے۔ لہذٰا، جب حکومت یہ کہتی ہے کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے تو یہ غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی رویہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ "پارلیمان کو اپنا اختیار استعمال کرنے دیا جائے، جس کے پاس جو عددی صورتحال ہے وہ سامنے آجائے گی اور اسی طرح پارلیمان چلتی ہے۔"
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ حکومت کے بیانات اندیشے پیدا کر رہے ہیں۔ حکومت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ آمرانہ سوچ کا مظاہرہ کرے
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ حکومت اسے اقلیت میں کیسے بدل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اگر چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو متنازع بنائے گی تو اس کے نتیجے میں ہارس ٹریڈنگ ہوگی جو ایک سراسر غیر جمہوری اقدام ہو گا۔
مشترکہ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اسے 66 اراکین سینیٹ کی حمایت حاصل ہے جبکہ قرارداد کی منظوری کے لیے 53 اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کی اس قرارداد کی مخالفت کی گئی ہے اور حکومتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس قرارداد کو منظور نہیں ہونے دیں گے۔
'اپوزیشن کے سینیٹرز اصولی موقف کو ووٹ دیں گے'
سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز کہتے ہیں کہ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحاریک عدم اعتماد واپس لے لی جائیں۔ ان کے بقول، اگر اپوزیشن قیادت اس اقدام کے ذریعے احتساب سے بچنا چاہتی ہے تو حکومت انہیں یہ راستہ دینے کو تیار نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف اگر تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہوتی ہے تو یہ پارلیمینٹ کے ایوان بالا میں ایک نئی روایت ہوگی جس کے نتیجے میں ایوان غیر مستحکم ہوگا۔
ان کے الفاظ میں،"کسی بھی چیئرمین سینیٹ کے خلاف پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد لائی جا رہی ہے۔ لیکن، یہ ضروری نہیں کہ آخری بار ہو، تین ماہ کے بعد کوئی اور تحریک لے آئے گا تو اس سے ایوان عدم استحکام کا شکار ہو گا۔"
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہماری عددی تعداد کم ہے۔ لیکن، ہمارا اصولی موقف درست ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کے سینیٹرز حکومت کے اصولی موقف کو ووٹ دے کر اس سازش کو ناکام بنائیں گے۔
شبلی فراز نے کہا کہ ان کی جماعت ملک سے کرپشن کے خاتمے اور وسائل کو لوٹنے والوں کے احتساب کے لیے اقتدار میں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن رہنماؤں پر مقدمات تحریک انصاف کی حکومت میں نہیں بنے یہ پرانے مقدمات ہیں جو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کی سیاسی قیادت پر قائم کیے تھے۔
اپوزیشن صادق سنجرانی کو کیوں ہٹانا چاہتی ہے؟
قائد ایوان سینیٹ شبلی فراز کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کا صادق سنجرانی کو ہٹا کر اپنا چیئرمین سینیٹ لانے کا مقصد قانون سازی کو روکنا اور اس کے ذریعے حکومت کو بلیک میل اور ناکام کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ ان کے بقول، اپوزیشن کے زیادہ تر سینیٹرز اس عمل سے خوش نہیں ہیں۔
قائد ایوان سینیٹ نے کہا کہ ’’اگر یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو سینیٹ ایسا ادارہ بن جائے گا جیسے کسی زمانے میں افغانستان میں ہر چھ ماہ کے بعد نیا حکمران آیا کرتا تھا‘‘۔
چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مقصد بتاتے ہوئے سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ یہ حکومت کو پیغام ہو گا کہ اپوزیشن حکومت کی حکمت عملی اور اقدامات سے متفق نہیں ہے۔ ان کے بقول، جمہوری ممالک میں حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت ایسے اقدامات سے ہی ہوتی ہے۔
سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ اپوزیشن کو توقع تھی کے حکومت کے غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی اقدامات کی چیئرمین سینیٹ کی طرف سے مخالفت کی جائے گی۔ لیکن، ایسا نہ ہونے پر مشترکہ اپوزیشن نے انہیں ہٹانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ مشترکہ اپوزیشن نے صرف چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا ہی فیصلہ نہیں کیا بلکہ حکومت کے دیگر غیر جمہوری اور عوام دشمن اقدامات کا بھی محاسبہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح چیئرمین سینیٹ کے معاملے پر رہبر کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اسی طرح دیگر معاملات پر یہ کمیٹیاں تشکیل دی جا سکتی ہیں۔
عدم اعتماد کی تحاریک پر کوئی سمجھوتہ ہوسکتا ہے؟
سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں ہر وقت راستہ کھلا ہوتا ہے۔ حکومت کا وفد اپوزیشن جماعتوں کے وفد سے ملاقات کر رہا ہے۔ اگر وہ اپوزیشن کو قابل قبول تجویز دیتے ہیں تو یہ معاملہ فوری حل ہو سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی نے 2018 میں تحریک انصاف کے ساتھ مل کر صادق سنجرانی کو منتخب کیوں کیا؟ اس سوال کے جواب میں سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ اب صورتحال مختلف ہے اس وقت تمام اپوزیشن جماعتیں چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی چاہتی ہیں۔
اپوزیشن کے ساتھ کسی سمجھوتے کے بارے میں شبلی فراز کہتے ہیں کہ اپوزیشن سے رابطوں کو حکومت کی کمزوی نہ سمجھا جائے۔ اس اقدام کا مقصد سینیٹ کو مضبوط کرنا ہے۔
قائد ایوان سینیٹ نے کہا کہ حکومت اپوزیشن کے دباؤ میں نہیں آئے گی اور نہ ہی احتساب کے معاملے پر سمجھوتہ کیا جائے گا۔
اپنے خلاف حکومت کی جانب سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد پر سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ وہ اس سے خطرہ محسوس نہیں کر رہے۔ اگر اکثریتی سینٹرز تحریک پر دستخط کردیں تو وہ اس پر رائے شماری سے پہلے ہی مستعفی ہوجائیں گے۔