کیا وزیرِ اعظم کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد جلد آ رہی ہے؟

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں دعویٰ کر رہی ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کن موڑ آ چکا ہے۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں بھی یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اپوزیشن جلد اسمبلی اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرانے والی ہے۔

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بیان کے بعد سیاسی ماحول مزید گرم ہو گیا ہے جس میں اُنہوں نے بدھ کو دعویٰ کیا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد کے لیے آنے والے 48 گھنٹے اہم ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کے کئی رہنما یہ دعوے کر رہے ہیں کہ اُن کے پاس وزیرِ اعظم عمران خان کو ہٹانے کے لیے نمبر گیم پوری ہے۔ البتہ وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے حال ہی میں اعلان کردہ ریلیف پیکج کے بعد حکومتی حلقے پراُمید ہیں کہ اپوزیشن کی کوئی بھی مہم جوئی کامیاب نہیں ہو گی۔

کیا تحریکِ عدم اعتماد اب بس دنوں کی بات ہے؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتحار احمد سمجھتے ہیں کہ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے 23 مارچ کو اجلاس کے پیشِ نظر قومی اسمبلی ایوان کی تزئین و آرائش جاری ہے۔ لہذٰا ہو سکتا ہے کہ 48 کے بجائے 72 گھنٹے لگ جائیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جن میں سے سرِ فہرست عمران خان کا طرزِ حکمرانی ہے اور دوسرا کسی بھی خفیہ ہاتھ کا 'ایک صٖفحے' سے پیچھے ہٹنا۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو پیکا قوانین سے زیادہ سخت قوانین پاکستان میں آئیں گے اور عمران خان مضبوط ہو جائیں گے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد مارچ میں ہی آئے گی، لیکن اس حوالے سے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جا سکتی۔

اپوزیشن رہنماؤں کے رابطوں میں حالیہ دنوں میں تیزی آئی ہے۔


وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ فضل الرحمٰن نے عجلت میں زیادہ ہی جلدی کی تاریخ دے دی ہے، جو ایک سیاسی حربہ ہو سکتا ہے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تحریکِ عدمِ اعتماد نہ آئے؟

سہیل وڑائچ کی رائے میں عدم اعتماد اُسی وقت کامیاب ہو گی جب حکمران جماعت پی ٹی آئی کے اندر کوئی فارورڈ بلاک بن جائے۔ اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب تک پی ٹی آئی کے اندر کوئی فارورڈ بلاک نہیں بنتا، جہانگیر ترین اور پرویز الہٰی کا کردار ثانوی رہے گا۔

اُن کے بقول سرپرائز صرف پی ٹی آئی کے اندر سے آ سکتا ہے۔ جب 20، 25 ارکانِ اسمبلی عمران خان کے خلاف ہو جائیں تب عدمِ اعتماد کامیاب ہو سکتی ہے۔

افتخار احمد کی رائے میں اگر عمران خان کی جماعت اُن کے ساتھ اِس مشکل وقت میں کھڑی رہے گی تو عمران خان سرخرو ہوں گے۔ لیکن اگر یہ تحریک ناکام ہوئی تو ووٹوں کا تناسب محض دو یا چار ہی ہو گا۔

حکومتی وزرا کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کی جانب سے حالیہ ریلیف پیکج کے اعلان کے بعد اپوزیشن کی کوششوں کو دھچکہ پہنچا ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عوام مہنگائی او ربے روزگاری سے پریشان ہیں، عمران خان نے ریلیف پیکج کا اعلان تو کیا ہے، لیکن اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اُن کے بقول عمران خان بھی صورتِ حال کی نزاکت کو سمجھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کے لیے لاہور میں اُن کی رہائش گاہ پر گئے تھے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حکومتوں کے پاس بہت سے ایسے وسائل ہوتے ہیں جنہیں بروئے کار لا کر وہ اپوزیشن کی سیاسی چالوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کا کردار

بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ 'امپائر' اب غیر جانبدار ہو چکا ہے۔ اُن کے بقول ہم امپائر کی حمایت کے خواہاں نہیں، بس یہ چاہتے ہیں کہ وہ حکومت کی حمایت چھوڑ دے۔

کیا واقعی 'امپائر' غیر جانبدار ہو گیا ہے؟ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں خفیہ اشاروں کا عمل دخل رہا ہے اور خود سیاست دان بھی ان اشاروں کے انتظار میں رہتے ہیں۔

اُن کے بقول اپوزیشن جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ خفیہ ہاتھ اس وقت حکمراں جماعت کے ساتھ نہیں ہے، لہذا موقع غنیمت جانتے ہوئے اُنہوں نے یہ سیاسی بساط بچھائی ہے۔

افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے خود کو موجودہ سیاسی صورتِ حال سے دُور رکھا ہوا ہے۔ اُن کے بقول اسٹیبلشمنٹ نے یہ تاثر دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں جو مرضی کریں۔

سیاست کا محور چوہدری برادران کیوں؟

سیاسی گرما گرمی کے اس ماحول میں مسلم لیگ (ق) توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

ایک جانب جہاں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی سے رابطے رکھے ہوئے تو وہیں وزیرِ اعظم عمران خان بھی حال ہی میں چوہدری شجاعت حسین سے ملے ہیں۔

لیکن قومی اور پنجاب اسمبلی میں محض چند نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ (ق) کا سیاسی کردار اتنا اہم کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بنیادی بات یہ کہ سیاسی نمبر گیم کچھ ایسی ہے کہ اگر اتحادی ٹوٹ جائیں تو حکومت گر جاتی ہے۔ اِس لیے سارے چوہدریوں کو مل رہے ہیں۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے پانچ اراکین ہیں جب کہ پنجاب اسمبلی میں لیگی اراکین کی تعداد 10 ہے، لیکن قومی اور پنجاب اسمبلی میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان نہایت کم عددی فرق کے باعث مسلم لیگ (ق) کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ چوہدری برادران کئی دہائیوں سے پنجاب کی سیاست میں سرگرم ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سے اُن کے روابط ہیں۔

افتحار احمد سمجھتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی نے بطور وزیرِ اعلٰی پنجاب اراکینِ اسمبلی کو راضی رکھا اور اُن سے مسلسل رابطے میں رہے، جب کہ چوہدری شجاعت حسین بھی اپنی رکھ رکھاؤ کی سیاست کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔