القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر اظہارِ رائے کرتے ہوئے، پاکستانی نژاد امریکی دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ القاعدہ کے سرغنے کو دیر سے سہی لیکن وہ سزا ملی جس کے وہ مستحق تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مذہبِ اسلام کی انتہا پسندی پر مبنی تشریح و توجیہ کرنے والوں کی تعداد’ آٹے میں نمک‘ کے برابر ہے، اور یہ کہ اسامہ بن لادن محض ایک علامتی حیثیت کا حامل تھا، اُن کی ہلاکت کا ایک مثبت اثر یہ پڑے گا کہ ایسے عناصر کی حوصلی شکنی ہوگی اور دنیا امن و محبت کی طرف گامزن ہوگی۔
کولمبیا یونیورسٹی میں قائد ِ اعظم چیئر کے سربراہ، ڈاکٹر حسن عباس نے صدر براک اوباما کے گذشتہ شب دیے گئے بیان کے بارے میں کہا کہ صدر نے’صاف و واضح‘ الفاظ میں کہا کہ اسامہ بن لادن مسلمانوں کا راہنما نہیں بلکہ ہزاروں مسلمانوں کا قاتل تھا، اور شدت پسندی کے خلاف جاری کارروائی کا تعلق مذہبِ اسلام سے ہرگز نہیں۔
پیر کے دِٕن وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹرعباس نے کہا کہ’اسامہ انسانیت کا دشمن تھا‘، اور صدر اوباما نے إِسی بات کو بڑے مؤثر انداز سے پیش کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں انصاف کے کٹہرے تک لانے میں دیر ضرورلگی، لیکن اُن کو وہ سزا ملی جس کے وہ مستحق تھے۔
">
اُنھوں نے کہا کہ اسامہ کی ہلاکت جہاں شادمانی کا باعث ہے، وہیں پر القاعدہ کے سرغنے کی طرف سے شدت پسندی اور دہشت گردی کی تربیت لینے والوںٕ کے لیے حوصلے کی پستی کا باعث بنے گی۔
اُن کے بقول، امریکہ اور مسلمانوں کو ضرور سوچنا ہوگا کہ کیا یہ بہتر تھا کہ ذہن کو اسامہ کو زندہ پکڑنے یا ہلاک کرنے پر ہی مرکوز کیاجانا چاہیئے تھا اور یہ کہ جنگ کو مزید ملکوں تک نہ پھیلایا جاتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ مؤقف پر نظرِ ثانی کے ذریعے، طویل المدتی پالیسیوں کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی ضرورت ہوگی تاکہ، اُن کے بقول،’ اب کوئی دوسرا اوسامہ بن لادن نہ بن پائے‘۔
پاکستانی امریکن پبلک افیئرز کمیٹی کے سربراہ، عرفان ملک نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں چھپا ہوا تھا پاکستان کے لیےمنفی تاثر کا باعث ہے، جس سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ اُن کے بقول، یہ ممکن نہیں کہ اسامہ بن لادن پاکستان کے ایک شہر میں ہوں اورپاکستانی اداروں کو اِس بات کا علم نہ ہو، ’ایسی بات بعید از قیاس ہوگی اور یہ کمزوری کی علامت ہوگی۔‘
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ پچھلے چند برسوں کے دوران اسامہ بن لادن کا ایک علامتی کردار سار رہ گیا تھا، اِس لیے اُن کی ہلاکت فتح کا ایک علامتی تاثر دیتی ہے جب کہ دوسری طرف دیگر ملکوں میں،مثلاً یمن اور صومالیہ میں، القاعدہ کے سیلز سے وابستہ دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ حکومتِ پاکستان سے اصرار کرتی رہی ہے کہ شدت پسندوں اور انتہا پسندوں کے خلاف مزید سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کے علاوہ افغان صدر حامد کرزئی اور بھارت پہلے ہی پاکستان یہ دعویٰ کرتےرہے ہیں کہ شدت پسند وہاں سے ہمسایہ ممالک میں جا کر دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں۔
کمیونٹی کے ممتاز راہنمابیرسٹر عباد الرحمٰن نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کا کھوج لگنا اور اُنھیں ہلاک کرنا تاریخی اہمیت کا حامل معاملہ ہے، جس سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔
عباد الرحمٰن نے کہا کہ اپنے بیان میں صدر اوباما نے پاکستان کی طرف سے معاونت اور صدرِ پاکستان کا’ ایک عامیانہ ذکر کیا، جو بات پریشان کُن ہے۔ ‘
ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن نے دنیا پربہت بڑا اثر چھوڑا ہے اور اُن کو لعن تعن کرنے والے اور گل پاشی کے خواہاں دونوں موجود ہیں۔ ’ساری دنیا میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے، جِن کی جانیں گئی ہیں، آج اُن کے لواحقین اطمینان اور طمانیت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی اسلام کو اپنا مخصوص رنگ والے لوگوں کے لیے بھی آج ایک لمحہٴ فکریہ ہے۔ ‘
اسامہ کو سمندر برد کرنے کے بارے میں ایک سوال پر، عباد الرحمٰن نے کہا کہ ’ اتنی جلدی آٹپسی اور ڈی این اے ٹیسٹ کا ہونا اور سمندر برد کیا جانا، جلد بازی کا معاملہ لگتا ہے‘۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ پینٹاگان جلد اِس معاملے پر کوئی تفصیلی بیان جارے کرکے حقائق سے پردہ اُٹھائے گا۔
اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کے سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ امریکی میڈیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ایبٹ آباد اور اسلام آباد میں 40میل کا فاصلہ نہیں اور اُن کے درمیان کوئی ہائی وے کی سہولت نہیں ہے۔
القاعدہ کے بارے میں سوال پر اُنھوں نے کہا کہ ایک چھوٹا سا ، آٹے میں نمک کے برابرگروہ ہے جو انتہا پسند اسلام کی توجیہ کر رہا تھا جب کہ پاکستان کی اکثریت امن اور ترقی میں ایمان اور دل چسپی رکھتی ہے۔ اُن کے الفاظ میں: ’لہذا، اسامہ کی ہلاکت پر پاکستان میں کوئی زیادہ ردِ عمل سامنے نہیں آئے گا۔ تاہم جو چھوٹے سیل رہ گئے ہیں وہ شاید حکومتی اور عوامی مقامات کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ‘
ڈیموکریٹس اور ریپبلیکن پارٹیوں کی سیاست کے بارے میں ایک سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ اپنی تقریر میں صدر اوباما نے سابق صدر بش کا ذکر کیا ، جب کہ کوشش یہ رہی کہ موجودہ انتظامیہ کی طرف سے کیے گئے اقدامات کا تفصیلی ذکر پیش کریں۔ اُنھوں نے کہا کہ اِس واقعے کی 2012ء کے امریکی صدارتی انتخابات پر اثرات پڑنے کا امکان ہے۔
پاکستانی امریکن لیڈرشپ سینٹر (پالسی) کے لیڈر، طٰحیٰ گایا نے بتایا کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا پاکستان امریکہ تعلقات پر مثبت اثر پڑے گا۔
طٰحیٰ گایا نے کہا کہ پاکستان 2001ء سے امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں قریبی تعاون کر رہا ہے اور پاکستان کی فوج نے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کی کارروائیوں میں ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔
اُن کے الفاظ میں آئی ایس آئی ، امریکی سی آئی اے کے ساتھ قریبی تعاون اور رابطے میں ہےاور اُن کی مربوط کارروائیوں کے نتیجے میں القاعدہ اور طالبان کے کئی ایک قداور لیڈروں کو قید و ہلاک کیا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اسامہ دہشت گردی کی علامت تھا اور اُن کی ہلاکت سے اُن کے ہمدردوں کے حوصلے پست ہوں گے اور دنیا سے شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔