ایبٹ آباد میں خفیہ آپریشن میں امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں اسامہ کی ہلاکت کے بعد جمعرات کو پہلی مرتبہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے اپنا اپنا موقف پیش کر دیاہے جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ اسامہ کے خلاف کارروائی یکطرفہ طور پر امریکا کی تھی اور اس حوالے سے پاکستان کو کوئی علم نہیں تھا کیونکہ پاکستان کے پاس ایسی ٹیکنالوجی نہیں جس کے ذریعے امریکی ہیلی کاپٹر کو پاکستان کا ریڈار سسٹم دیکھ سکتا۔ یہ بات نہ صرف پاکستان بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک امریکا سمیت تمام اتحادیوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے ۔
مبصرین کہتے ہیں کہ نائن الیون کے واقعہ کے وقت امریکا بھی اسی صورتحال سے دو چار تھا جس سے آج کا پاکستان ہے۔ نائن الیون کے وقت اس کی سیکورٹی پر بھی اسی طرح سوالات اٹھائے جا رہے تھے جس کا رد عمل افغانستان پر امریکی حملے کی صورت میں آیا اور اس خطے میں القاعدہ کے باعث ایسی جنگ چھڑی جس میں نہ صرف افغانستان بلکہ امریکا کا اتحادی ہونے کے باعث پاکستان بھی لپیٹ میں آ گیا اور دہشت گردحملوں میں اتنی جانیں ضائع ہوئیں جس کا شاید کسی کے پاس مصدقہ ریکارڈ بھی نہیں۔
دو مئی دو ہزار گیارہ کوامریکی کمانڈوز نے پاکستان کے ایک احساس علاقے میں کارروائی کی اور پاکستانی فوج کو اپنی ناک کے نیچے ہونے والے واقعے کی کانوں کان خبر تک نہ ہوئی جس کے بعد نائن الیون جیسی صورتحال پاکستان کیلئے بھی پیدا ہو گئی اور ہر طرف سے پاکستان کے سیکورٹی نظام پر شدید تنقید کی جا رہی ہے لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اس کے دوسرے پہلو کا جائزہ لیا جائے تو وہ اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں محدود وسائل کے باوجود فرنٹ اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے والے پاکستان کی ضروریات کو پورا نہیں کیا جارہا ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس حقیقت سے بھی دنیا کی کسی طاقت کو انکار نہیں کہ افغان جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی مدد کے بغیر نہیں جیتی جا سکتیں تو پھر مشکلات کے شکار پاکستان کی مدد کے بجائے اس پر تنقید کیوں؟
تجزیہ کار کہتے ہیں اسامہ کی پاکستان میں موجودگی کے بعد اٹھنے والے لاتعداد سوالات کے جوابات ایبٹ آباد میں ہونے والے آپریشن میں موجود ہیں ۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اسامہ ایبٹ آباد کے ایک احساس علاقے میں رہائش پذیر رہا اور یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستانی فوج کو خبر تک نہ ہوئی؟ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق اسامہ کے خلاف امریکی آپریشن پاکستان کی ہی ابتدائی رپورٹس کی بناء پر کیا گیا ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے پاس ویسی ٹیکنالوجی نہیں تھی کہ وہ خود اسامہ کے ٹھکانے کو مانیٹر کرتا اور اسامہ کو ہلاک کرنے کا' اعزاز'بھی خود ہی کیوں نہ حاصل کرتا؟ پاکستان کی عسکری قیادت بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اس کے پاس جدید ٹیکنالوجی کا فقدان ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکی کارروائی کا اسے علم نہیں ہو سکا ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس تمام تر صورتحال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو اس وقت نہ صرف خود کیلئے بلکہ دنیا بھر کے امن کے لئے جدید ٹیکنالوجی درکار ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دنیا جانتی ہے کہ القاعدہ جو نائن الیون جیسی کارروائی کر سکتی ہے ، کیا وہ پاکستان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرے گی ؟
اس تمام تر صورتحال میں بھارت بھی پاکستان میں اپنے اہداف کے خلاف ایسی ہی کارروائیوں پر سوچنے لگا جس کے بعد پاکستانی قیادت یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ اس طرح کی کارروائیوں کا اب بھر پور جواب دیا جائے گا ۔ ماہرین کے مطابق ممبئی حملے بھارت کی سیکورٹی پر بھی متعدد سوالات اٹھا رہے ہیں لہذا اس تمام تر صورتحال میں اسے پاکستان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا چاہیے اور دہشت گردی کے خلاف بھر پور امداد کی یقین دہانی کرانی چاہیے تاکہ پاکستان کے حوصلے مزید بلند ہوں نہ کہ ایسی باتیں جس سے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کو مزید ہوا ملے ۔
ایبٹ آبا د واقعہ کے بعد پاکستان اور امریکا کی قیادت میں ایک مثبت پہلو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دونوں اطراف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی صورت کوئی سمجھوتہ برداشت کرنے کیلئے راضی نہیں ۔ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاک امریکا تعلقات نچلی سطح پر ہیں اور دہشت گردی کے خلاف بھارت کے ساتھ بھی ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ تعاون کے بدلے تعاون ہی کیا جائے گا، اس کے علاوہ دیگر پاکستانی قیادت کا انداز بھی پاک امریکا تعلقات سے متعلق انتہائی مثبت نظر آ رہا ہے ۔
دوسری جانب امریکی صدر بارک اوباما اور دیگر اعلیٰ قیادت بھی اس نازک صورتحال سے آگاہ ہیں اور انہیں اس آپریشن سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ پاکستان کی ضروریات کیا ہیں اور اگر وہ مہیا نہ کی گئیں تو دہشت گرد امریکا اور عالمی برادری کے مفادات کو کیسے تار تار کر سکتے ہیں ۔
اسی تناظر میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے ترجمان مائیکل مان کا یہ بیان بھی حوصلہ افزاء ہے کہ اسامہ کے خلاف آپریشن سے واضح ہو گیا کہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو ملک کے تمام حصوں میں حکومتی عملدراری قائم کرنے کیلئے مزید تعاون اور مدد کی ضرورت ہے اور پاکستان کو سیکورٹی امور میں بھی تعاون درکار ہے۔
اس تناظر میں مبصرین اس بات پر بار بار زور دے رہے ہیں کہ اگر دنیا نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف مدد نہ کی یا اس کی خود مختاری پر کسی قسم کی آنچ آئی تو یہ جنگ اتنی وسیع ہو جائے گی کہ اس سے دنیا کا کوئی کونہ محفوظ نہ رہے گا اوراس کے بعد بھی ہر طرف سوالات ہی سوالات نظر آئیں گے۔ یہ سب سوالات نئی نسل کے ہوں گے جو پوچھ رہی ہو گی کہ اس وقت اسے ایک خطے تک ہی محدود کیوں نہیں رکھا گیا ؟ فرنٹ لائن اسٹیٹ کی مدد کر کے یہ جنگ اس خطے میں ہی ختم کی جا سکتی تھی مگر ایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟