ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اعلیٰ سطحی اجلاس میں عالمی رہنماؤں سے خطاب کے دوران عالمی امن پر فوکس کیا اور ایسے اقدامات پر بات کی جو اسے ممکن بنا سکتے ہیں۔انہوں نے اس ضمن میں دیگر امور کے علاوہ ،مسئلہ کشمیر ، افغانستان , اور مغربی ملکوں میں بڑھتے ہوئے "اسلامو فوبیا" پر بات کی۔
کشمیر
اردوان نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں عالمی خوشحالی اور امن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ "ایک پیش رفت جو جنوبی ایشیا میں علاقائی امن، استحکام اور خوشحالی کی راہ ہموار کرے گی، بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت اور تعاون کے ذریعے کشمیر میں ایک منصفانہ اور دیرپا امن کا قیام ہوگا۔"
انہوں نے کہا ترکیہ اس سمت میں اٹھائے جانے والے اقدامات کی حمایت جاری رکھے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت کے میڈیا نے اس بات کو نوٹ کیا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کا یہ تبصرہ نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے چند ہفتوں بعد آیا ہے جس کے دوران دونوں رہنماؤں نے تجارتی اور بنیادی ڈھانچے کے تعلقات کو مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کیا۔
افغانستان
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ترکی وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ اپنے تعاون کو مضبوط بنا رہا ہے، صدر اردوان نے افغان عوام کو درپیش مصائب کی بات کرتے ہوئے کہا "افغان عوام، جو نصف صدی سے مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، انہیں سیاسی مقاصد سے قطع نظر انسانی امداد اور مدد کی شدید ضرورت ہے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ اس ملک کی عبوری حکومت کی، ایک ایسی جامع نوعیت کی انتظامیہ میں تبدیلی، جس میں معاشرے کے تمام طبقات کی منصفانہ نمائندگی ہو، افغانستان کے لیے راہ ہموار کرے گی اور بین الاقوامی سطح پر اس کا مثبت جواب دیا جائے گا۔
چین میں ایغور اقلیت اور روہنگیا پناہ گزین
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنی تقریر میں کہا کہ"ہم ہر موقع پر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم چین کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔
تاہم بقول ان کے،" ہم ایغور ترکوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کے حوالے سے اپنی حساسیت کا اظہار کرتے رہیں گے اور ایجنڈے پر قائم رہیں گے، جن کے ساتھ ہمارے مضبوط تاریخی اور سماجی تعلقات ہیں۔
انہوں نے اس پر زور دیا کہ ترکیہ ایک ایسا ملک ہے جس نے روز اول ے ہی میانمار اور بنگلہ دیش میں مشکل حالات میں رہنے والے روہنگیا مسلمانوں کے لیے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
بقول ان کے،"بے گھر روہنگیاز کے لیے ہماری مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ وہ محفوظ، رضاکارانہ اورباوقار طریقے سےمستقل طور پر اپنے وطن واپس نہیں جاتے۔"
"نفرت پر مبنی گفتگو، پولرائزیشن اور بے گناہ افراد کے خلاف امتیاز ہر ضمیر کو مجروح کرتا ہے" "
Your browser doesn’t support HTML5
ترکیہ کے صدر نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا"نسل پرستی، زینو فوبیا اور اسلامو فوبیا، جو خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ایک وائرس کی طرح پھیلتے ہیں، ناقابل برداشت سطح پر پہنچ چکے ہیں."
صدر ایردوان نے مزیدکہا: "نفرت انگیز تقریر، پولرائزیشن اور بے گناہ افرادکے خلاف امتیاز دنیا کے ہر کونے میں ہر ضمیر کو مجروح کرتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے، بہت سے ممالک میں سیاست دان ان خطرناک رجحانات کی حوصلہ افزائی کرکے آگ سے کھیلتے ہیں۔ "وہ ذہنیت جو یورپ میں آزادی اظہار کی آڑ میں قرآن کے خلاف گھناؤنے حملوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، درحقیقت اپنے مستقبل کو تاریک کر رہی ہے۔"
انہوں نے تمام پلیٹ فارمز پر اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے اقدامات کی حمایت رکھنے کا عزم ظاہر کیا خاص طور پر اقوام متحدہ، او ایس سی ای اور اسلامی تعاون کی تنظیم میں۔
ترکیہ کے رہنما نے کہا، "میں اپنےان تمام دوستوں سے، جو خوداپنے عقیدے سے قطع نظر، مقدس اقدار پر حملوں کو قبول نہیں کرتے،کہوں گا کہ وہ ہماری کوششوں کا ساتھ دیں۔"