بھارت میں حجاب کا تنازع یا وہاں اقلیتوں کے ساتھ مبینہ ناروا سلوک کی خبریں سامنے آنے پر ایک بڑی جمہوریت اور سیکیولر ملک کی حیثیت سے بیرون ملک بھارت کے تشخص پر کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ اس بارے میں بیرون ممالک مقیم بھارت سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی رائے منقسم ہے۔ بعض کے خیال میں دنیا عارضی نوعیت کے واقعات پر کسی ملک کے لیے رائے قائم نہیں کرتی جب کہ بعض شہری ایسے واقعات کو جمہوری تشخص کے لیے نقصان دہ خیال کرتے ہیں۔
سنجے کول امریکہ میں مقیم ایک بھارتی نژاد امریکی ہیں۔ بھارتی کمیونٹی میں بہت سرگرم ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے سول انجینئر ہیں۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس سے بھارت کے امیج یا شہرت کو کوئی نقصان پہنچے گا۔ بقول ان کے، ’’ یقیننا یہ تھوڑی دیر کے لیے ایک مسئلہ ہے جو لوگ سنیں گے، اس کے بارے میں پڑھیں گے، مگر زیادہ توجہ نہیں دیں گے۔ اس سے بھارت کے بارے میں لوگوں کی سوچ پر کوئی مستقل اثر نہیں پڑے گا۔ یہ ایک عارضی معاملہ ہے۔‘‘
سنجے کول کا کہنا تھا کہ بھارت میں ایسے مسائل اسی وقت ابھر کر سامنےآتے ہیں یا لائے جاتے ہیں جب وہاں الیکشن ہو یا کوئی بڑا کام ہونے والا ہو۔
انھوں نے کہا کہ ’’ وہ قوتیں جو اس خطے میں استحکام نہیں چاہتیں جو نہیں چاہتیں کہ ہندوستان ترقی کے راستے پر چلے وہ ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو بے یقینی کا ہو۔ خاص طور سے اقلیتیں محسوس کریں کہ وہ غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہیں۔ وہ افواہیں پھیلا کر اقلیتوں کےلیے خوف کا ماحول پیدا کر دیتی ہیں۔ اور اس بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بھارت کی پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ قوتیں خوف کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ حالانکہ بھارتی آئین تمام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔‘‘
حقوق انسانی کی تنظیموں کی جانب سےکبھی کبھار بھارت میں اقلیتوں کے حوالے سے تنقید کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ''یہ تنقید بے جا ہوتی ہے''۔
ان کے الفاظ میں، ’’ ان تنظیموں کے پاس تفصیلی اعداد و شمار یا حقائق نہیں ہوتے کوئی تفصیلی تحقیق نہیں ہوتی بس جو ظاہر میں نظر آتا ہے۔ تفصیلی تحقیق کیے بغیر اسی پر اظہار خیال کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس حجاب والے مسئلے پر بھارتی آئین کی شق 25 کا حوالہ دیا جاتا ہے جو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ درست ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اسی کرناٹکہ ریاست میں اسٹیٹ ایکٹ آف 1983 کے کلاز 133 کے تحت ہر تعلیمی ادارے کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنا ڈریس کوڈ اور یونیفارم کوڈ اختیار کرسکتے ہیں۔‘‘
ششمہ دت کیینڈا میں مقیم ایک بھاری نژادخاتون ہیں۔ ان کا تعلق براڈکاسٹنگ سے ہے۔ کینیڈا میں ریڈیو اور ٹیلیویژن نیٹ ورک چلاتی ہیں۔ بھارت میں حجاب کے تنازعے پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور اس میں کسی اور کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نےکہا کہ بھارت میں جو کچھ ہوتا ہے اسے مختلف لوگ اپنے اپنے نقطہ نظر اور مقصد سے دیکھتے اور اس کی تشریح کرتے ہیں اور اپنی تشریح کو آگے پہنچاتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس وجہ سے اس قسم کے مسائل کو اٹھایا جانا مناسب نہیں ہے۔
’’بعض قوتیں اپنے مقاصد کےلیے ایسے مسائل کو اچھالتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ وہ اس سے کتنا فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور پھر اسے چھوڑ دیتی ہیں؛ جیسا کہ کسانوں کے احتجاج کے مسئلے پر ہوا۔ ایسا ہی اس پر بھی ہوگا۔ ملک کی شہرت کو نقصان تو ہو گا۔ لیکن وقتی طورپر۔ وہ بڑا اور جمہوری ملک ہے۔ اپنی شہرت واپس حاصل کر لے گا۔‘‘
للیت وان چو امریکہ میں مقیم بھارتی نژاد شہری ہیں۔ سائنس اور منیجمنٹ کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ مبینہ سلوک کا مسئلہ ہو یاحالیہ حجاب سے متعلق مسئلہ۔ یہ کوئی ایسا بین الاقوامی مسئلہ تو ہے نہیں کہ دنیا اس پر توجہ دے گی اور بھارت کی شہرت کو کوئی نقصان پہنچے گا۔ خاص طور پر یہ حجاب کا مسئلہ سیاست اور انتخابات سے متعلق مسئلہ ہے۔ یہ ایک اسکول کا مسئلہ ہے۔ اسکول کی انتظامیہ، طالبہ اور اسکے والدین کےدرمیان جو انتہائی مقامی نوعیت کا ہے تو پھر اسے قومی سطح پر کیوں ہوا دی جارہی ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں ایسے مقامی مسائل ہوتے ہیں جنہیں اس طرح ہوا نہیں دی جاتی۔ لیکن بھارت میں ایک خاص مقصد کےلیے مخصوص مفادات رکھنے والے لوگ اسے استعمال کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: بھارت: حجاب اور کیسری رومال آمنے سامنے, مذہبی آزادی پر نئی بحثللیت وان چو کے بقول ’’ جہاں تک بطور مجموعی بھارت میں اقلیتوں کا مسئلہ ہےتو کئی عشروں کے دوران وہاں حکومتوں نے اقلیتوں کو اوپر لانے، ان کو بہتر مواقع فراہم کرنے اور ان کی غربت اور پسماندگی دور کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بس سیاسی مقاصد کےلیے، ظاہری طور پر انہیں خوش کرنے کی کوشش کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ان کی وہی حالت ہے جو پچاس ساٹھ برس پہلے تھی۔ اور اب چونکہ بھارت میں ریاستی انتخابات ہو نے والے ہیں اس لیے مخصوص مفادات رکھنے والے لوگ حجاب کے مسئلے کو اچھال رہے ہیں جس سے وہ شاید کچھ حاصل نہ کر پائیں؛ کیونکہ بھارت ایک بڑا ملک ہے جو اپنی جمہوری روایات اور مضبوط معیشت کےلیے دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔ اور اس شہرت کو ایسے معمولی واقعات سے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
علی رضوی بھی ایک بھارتی نژاد امریکی شہری ہیں اورمتعدد بار انڈیا ایسوسی ایشن آف گریٹر بوسٹن ایریا کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن رہ چکے ہیں۔ بھارت میں حالیہ حجاب تنازعے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ بھارت ایک عظیم جمہوریت ہے جس کا آئین ملک میں آزادی اظہار آزادی مذہب کی ضمانت دیتا ہے ۔لیکن، ان کے بقول، آج ہندوستان میں جو حالات ہیں وہ مناسب نہیں۔
بقول ان کے، ’’ حالات صرف اقلیتوں کے واسطے بہتر نہیں ہیں بلکہ خود ہندوستان کی جمہوریت کے لیے بھی اچھے نہیں ہیں خاص طور سے حجاب کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا اور جتنا یہ معاملہ اچھالا جارہا ہے، وہ شرمناک ہے کیونکہ حجاب کوئی مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مختلف مذاہب میں اس کا رواج ہے جسے مختلف انداز میں پہنا جاتا۔ جیسے ہندو خواتین لمبا گھونگھٹ نکالتی ہیں۔ قدامت پسند یہودیوں میں خواتین مختلف انداز سے سر کو ڈھانپتی ہیں۔ عیسائیوں میں بھی ننز سر کو چھپاتی ہیں۔ تو یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ مگر اسے جس طرح مسئلہ بنایا جارہا تو جہاں لوگوں کے علم میں یہ بات آئےگی، وہ اسے اچھا محسوس نہیں کریں گے اور سمجھیں گے کہ ہندوستان میں اقلیتی کمیونٹیز کے لیے عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہی۔ اور ظاہر ہے یہ بھارت کی عمومی شہرت کےلیے اچھا نہیں ہے۔ اور انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ وہی لوگ کر رہے ہیں۔ اور ان کو آخر کار اپنے مقصد میں ناکامی ہوگی۔‘‘