|
ایسے میں جبکہ اقوام متحدہ جمعے کو پانی کا عالمی دن منارہی ہے، عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب آبی وسائل پر تصادم کا بڑھتا ہوا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
دریں اثناء غیر سرکاری امدادی ادارے آکسفوم نے عالمی کارپوریشنوں پر اپنے منافع کو بڑھانے کے لئے غریب ملکوں سے پانی ہتھیانے کا الزام عائد کیا ہے۔
اس سال کے تھیم“پانی برائے امن” کا اعلان کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ جب پانی کی قلت ہو، یا پانی آلودہ ہو، یا جب لوگوں کی پانی تک رسائی غیر مساوی ہو یا بالکل نہ ہو ، تو کمیونٹیز اور ممالک کے درمیان تناؤ بڑھ سکتا ہے۔
SEE ALSO: بھارت کے اہم آبی ذخائرکم ترین سطح پر، کیاآنے والے برسوں میں پانی پرجنگوں کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں تین ارب سے زیادہ لوگوں کا ایسے پانی پر انحصار پے جو قومی سرحدوں کے پار سے آتا ہے۔ لیکن صرف چوبیس ممالک ایسے ہیں جنکے آبی اشتراک کے تعاون کے معاہدے ہیں۔
اس کا کہنا ہے ایسی صورت حال میں جب موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بڑھ رہے ہیں اور ساتھ ہی آبادی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ،ممالک کے اندر اور ان کے درمیان ہمارے انتہائی قیمتی وسائل کے تحفظ اور اسے بچاکر رکھنے کے لئے متحد ہونے کی فوری ضرورت ہے
جنوبی افریقہ کے سب سے بڑے شہر جوہانسبرگ میں پانی کے نلکے کئی ہفتوں سے خشک ہیں جس سے لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سوئیٹو شہر کے مضافات میں ہزاروں لوگ ان ٹینکروں سے جو شہر سے باہر سے پانی لیکر آتے ہیں، بوتلوں اور بالٹیوں میں پانی لینے کے لئے قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
ساہئینسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی بدتر ہوتی ہوئی صورت حال، جنوبی افریقہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے دوسرے حصوں میں بھی آبی ذخیروں کے خشک ہو جانے کا سبب بن رہی ہے۔
اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ دنیا کے دو اعشاریہ دو ارب لوگ پینے کےمحفوظ پانی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کی کوئی نصف آبادی کو سال کے کم از کم کچھ حصے میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اورگلوبل ساؤتھ کے غریب ملک اس سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
جمعرات کو شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں آکسفوم نے بڑی عالمی کارپوریشنوں پر پانی کے اہم وسائل ہتھیانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ نجی شعبہ منافع کمانے کے لئے مقامی آبادی کی قیمت پر ان وسائل کو ہتھیا رہا ہے اور آلودہ کر رہا ہے۔ جس سے عدم مساوات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے،
Your browser doesn’t support HTML5
آکسفوم نے امیر ممالک اور کثیر القومی کارپوریشنوں پر پانی کی کمی کو غریب خطوں کی جانب منتقل کرنے کا الزام لگایا ہے جسکے لئے وہ ان علاقوں سے ایسی مصنوعات درآمد کرتے ہیں جنکے لئے پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، جیسے پھل، سبزیاں، گوشت، پھول اور بوتلوں میں پانی وغیرہ۔
آکسفوم فرانس کے زراعت اور خوراک کے ماہر کوئنٹن گیسکر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تین سو پچاس کارپوریشنوں میں سے، جنکا ڈیٹا بیس کے ذریعے تجزیہ کیا گیا اور جو دنیا میں زرعی آمدنی کے نصف حصے کو کنٹرول کرتی ہیں، ان میں چار میں سے صرف ایک یہ اعلان کرتی نظر آتی ہے کہ وہ پانی کے استعمال اور آلودگی کو کم کر رہی ہے۔
آکسفوم کی کی رپورٹ میں سخت ضابطوں کی سفارش کی گئی ہے اور ترقی پذیر ملکوں میں اس مد میں بھاری فنڈنگ اور پانی تک عالمی رسائی کے لئے کہا گیا ہے۔