افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی کا پہلا جائزہ اجلاس پیر کو اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں مختلف شعبوں میں تعاون کو مستحکم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
اجلاس کے دوران پاکستانی وفد کی قیادت پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے جب کہ افغان وفد کی قیادت افغانستان کے نائب وزیر خارجہ زمان ادریس نے کی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق، پیر کو ہونے والے پاک افغان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سالیڈریٹی یعنی ‘اے پی اے پی پی ایس’ کے مذاکرات میں ’سیاسی سفارتی، دفاعی، انٹیلی جینس، معیشت کے شعبوں میں تعاون اور پناہ گزینوں کے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بیان کے مطابق، پاکستان اور افغانستان کے عہدیداروں نے افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ، خطے میں قیام امن کے لیے باہمی تعاون اور اعتماد سازی کے فروغ کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
بعد ازاں، افغان نائب وزیر خارجہ زمان ادریس نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی جس میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطوں کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔
اس موقع پر پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان افغان امن عمل سمیت خطے میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک افغان امن و یکجہتی کے فریم ورک کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد اور کابل نے دونوں ملکوں کے درمیان بین الادارتی رابطوں کے لیے افغانستان پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سالیڈیرٹی کا فریم ورک مئی 2018 میں تیار کیا تھا، جس کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تعاون کو فروغ دینا تھا۔ جس کے تحت سیاسی و سفارتی، انٹیلی جینس معلومات کے تبادلے اور مشترکہ اقتصادی ترقی سے متعلق معاملات کے حل کے لیے پانچ فریم ورک تشکیل دیے گئے تھے۔
پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ ایکشن پلان کے فریم ورک کا اجلاس ایک ایسے وقت ہوا ہے جب افغان صدر اشرف غنی نے 27 جون کو پاکستان کا دورہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطحی رابطوں سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
سیاسی و سفارتی حلقے موجودہ حالات میں افغان صدر کے دورہ پاکستان اور پاک افغان ایکشن پلان کے اجلاس کو اہمیت دے رہے ہیں۔
پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی اور تعلقات میں قربت پیدا ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کی بڑی طاقتیں بشمول امریکہ، روس اور چین اپنے دیگر اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے افغانستان میں امن کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں جس میں پاکستان بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
خلیل زاد کی صدر غنی سے ملاقات
دوسری طرف امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغانوں کو امن عمل میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ خلیل زاد نے یہ بات امریکی وفد کے ہمراہ اتوار کو افغان صدر اشرف غنی اور ان کی ٹیم سے کابل میں ملاقات کے بعد ایک ٹوئٹ میں کہی ہے۔ اس ملاقات میں افغان امن عمل سے متعلق بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا کرنے کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔
خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ صدر غنی سے اس ملاقات میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ہونے والی حالیہ مثبت پیش رفت پر بھی گفتگو ہوئی۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی خلیل زاد افغان امن عمل کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بار پھر خطے کے دورے پر ہیں اور کابل پہنچے سے پہلے وہ اسلام آباد، برلن اور برسلز کا دورہ کر چکے ہیں۔
کابل میں امریکہ کے سفارت خانے نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ خلیل زاد اپنے دورہ کابل کے دوران افغانستان میں امن سے متعلق امریکی کوششوں کے بارے میں افغان سیاسی رہنماؤں، علما، نوجوانوں، سول سوسائٹی اور خواتین کے نمائندوں سے بھی مشاورت کریں گے۔
خلیل زاد، قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں جس کے متعلق دونوں فریقوں کا یہ کہنا ہے کہ اس میں پیش رفت ہوئی ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی امن معاہدے کے لیے طالبان، افغان حکومت اور دیگر افغانوں کے درمیان بات چیت ضروری ہے۔