عمران خان نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کی کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا ہے جس میں نیٹو کی رسد کو روکے جانے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔
اسلام آباد —
پاکستان نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ہنگو میں ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ ایسی کارروائی اُس کی سالمیت اور سرحدی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔
دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان بھر میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہیئں۔
بیان کے مطابق پاکستان ڈرون حملوں سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار امریکی انتظامیہ اور اقوام متحدہ میں بھی کر چکا ہے جب کہ حالیہ دورہ واشنگٹن میں وزیراعظم نواز شریف نے بھی اس معاملے پر صدر براک اوباما اور دیگر سینیئر امریکی رہنماؤں سے بات کی تھی۔
خیبرپختونخواہ کے بندوبستی علاقے میں یہ پہلا ڈرون حملہ ہے اور اس صوبے کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک ہنگامی نیوز کانفرنس میں کہا کہ ڈرون حملوں کے خلاف اُن کی جماعت ہفتہ کے روز پشاور میں بھرپور احتجاج کرے گی۔
’’یہ جو حملہ ہوا ہے اس پر ہم خیبر پختونخواہ کی کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلا رہے جس میں کل تک فیصلہ کریں گے کہ سرکاری طور پر بھی ہم نیٹو کی رسد روک سکتے ہیں کیوں کہ یہ حملہ خیبر پختونخواہ میں ہوا ہے، لیکن اس کا فیصلہ صوبائی کابینہ ہی کرے گی۔‘‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت ڈرون حملوں کے معاملے پر امریکہ سے بھرپور اور موثر احتجاج کرے۔
پاکستان کی ایک بڑی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ ڈرون حملوں کے معاملے پر قومی پالیسی سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
’’ہم نے گزشتہ آٹھ سالوں سے ہمیشہ صرف احتجاج کیے اور قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس حوالے سے ہمیں بڑی واضح اور ٹھوس بات کرنی چاہیئے اور سرکاری و نجی سطح پر ہمیں ایک ہی نکتہ نظر پیش کرنا چاہیئے۔‘‘
پشاور یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے ڈرون حملوں کے معاملے پر قابل قبول راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
’’ایسا نا ہو کہ آگے چل کر پاکستانی حکومت بالکل ہی جارحانہ انداز میں سامنے آ جائے، کیوں کہ کل جماعتی کانفرنس میں جو فیصلہ ہوا تھا اس کے مطابق تمام جماعتیں متفق ہیں، بہتر یہ ہو گا کہ اگر واشنگٹن ایک اچھی ہم آہنگی پیدا کر لے تو اس سے اُن کے مقاصد بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور پاکستان بھی اپنے لوگوں کی بقا اور سلامتی کے لیے اچھے اقدامات کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔‘‘
پاکستان کی حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف سرکاری کوششوں کے لیے نقصان دہ ہیں اور اس موقف سے امریکہ کو بھی آگاہ کیا جا چکا ہے۔
امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈرون کو ایک موثر ہتھیار گردانتا ہے اور اب تک ایسے حملوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دو سربراہان سمیت کئی اہم شدت پسند کمانڈر مارے جا چکے ہیں۔
دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان بھر میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہیئں۔
بیان کے مطابق پاکستان ڈرون حملوں سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار امریکی انتظامیہ اور اقوام متحدہ میں بھی کر چکا ہے جب کہ حالیہ دورہ واشنگٹن میں وزیراعظم نواز شریف نے بھی اس معاملے پر صدر براک اوباما اور دیگر سینیئر امریکی رہنماؤں سے بات کی تھی۔
خیبرپختونخواہ کے بندوبستی علاقے میں یہ پہلا ڈرون حملہ ہے اور اس صوبے کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک ہنگامی نیوز کانفرنس میں کہا کہ ڈرون حملوں کے خلاف اُن کی جماعت ہفتہ کے روز پشاور میں بھرپور احتجاج کرے گی۔
’’یہ جو حملہ ہوا ہے اس پر ہم خیبر پختونخواہ کی کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلا رہے جس میں کل تک فیصلہ کریں گے کہ سرکاری طور پر بھی ہم نیٹو کی رسد روک سکتے ہیں کیوں کہ یہ حملہ خیبر پختونخواہ میں ہوا ہے، لیکن اس کا فیصلہ صوبائی کابینہ ہی کرے گی۔‘‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت ڈرون حملوں کے معاملے پر امریکہ سے بھرپور اور موثر احتجاج کرے۔
پاکستان کی ایک بڑی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ ڈرون حملوں کے معاملے پر قومی پالیسی سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
’’ہم نے گزشتہ آٹھ سالوں سے ہمیشہ صرف احتجاج کیے اور قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس حوالے سے ہمیں بڑی واضح اور ٹھوس بات کرنی چاہیئے اور سرکاری و نجی سطح پر ہمیں ایک ہی نکتہ نظر پیش کرنا چاہیئے۔‘‘
پشاور یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے ڈرون حملوں کے معاملے پر قابل قبول راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
’’ایسا نا ہو کہ آگے چل کر پاکستانی حکومت بالکل ہی جارحانہ انداز میں سامنے آ جائے، کیوں کہ کل جماعتی کانفرنس میں جو فیصلہ ہوا تھا اس کے مطابق تمام جماعتیں متفق ہیں، بہتر یہ ہو گا کہ اگر واشنگٹن ایک اچھی ہم آہنگی پیدا کر لے تو اس سے اُن کے مقاصد بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور پاکستان بھی اپنے لوگوں کی بقا اور سلامتی کے لیے اچھے اقدامات کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔‘‘
پاکستان کی حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف سرکاری کوششوں کے لیے نقصان دہ ہیں اور اس موقف سے امریکہ کو بھی آگاہ کیا جا چکا ہے۔
امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈرون کو ایک موثر ہتھیار گردانتا ہے اور اب تک ایسے حملوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دو سربراہان سمیت کئی اہم شدت پسند کمانڈر مارے جا چکے ہیں۔