بھارت اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر قائم فوجی چوکیوں پر تعینات افسران و اہلکاروں سے بھی جنرل راحیل نے ملاقات کی۔
اسلام آباد —
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے منگل کو کشمیر میں حد بندی لائن پر فوج کے اگلے مورچوں کا دورہ کیا۔
بھارت اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر قائم فوجی چوکیوں پر تعینات افسران و اہلکاروں سے بھی جنرل راحیل نے ملاقات کی۔
حال ہی میں پاکستانی فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف نے ملک کے قبائلی علاقوں کا بھی دورہ کیا تھا اور سرحدی علاقوں میں تعینات فوجی جوانوں اور افسران سے ملاقاتوں کے اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر وہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر گئے۔
حالیہ مہینوں میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کی سرحدی افواج کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات کے باعث کشیدگی میں اضافہ ہوا جس میں دونوں جانب سے متعدد اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
کشمیر میں سرحدی کشیدگی میں اضافہ رواں سال اگست کے اوائل میں ہوا جب ایک حملے میں پانچ بھارتی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جس کا الزام بھارت نے پاکستان پر لگایا لیکن اسلام آباد روز اول ہی سے اس کی تردید کرتا رہا ہے۔
اس واقعے کے بعد لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات وقفے وقفے سے جاری رہے جس میں پاکستان کے مطابق اُس کے ایک فوجی افسر سمیت کم از کم چار اہلکار ہلاک ہوئے جب کہ کئی شہری بھی اس کی زد میں آئے۔
دونوں ملک ایک دوسرے پر فائر بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003ء میں لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا معاہدے طے پایا تھا جس کے بعد سے اس سرحدی علاقے میں پہلی مرتبہ اس قدر کشیدگی دیکھنے میں آئی۔
تاہم دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی رواں سال ستمبر میں ملاقات کے علاوہ پاک بھارت اعلٰی سفارتی رابطوں کے بعد حالیہ ہفتوں میں ایک بار پھر صورت حال معمول پر آنا شروع ہو گئی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر قائم فوجی چوکیوں پر تعینات افسران و اہلکاروں سے بھی جنرل راحیل نے ملاقات کی۔
حال ہی میں پاکستانی فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف نے ملک کے قبائلی علاقوں کا بھی دورہ کیا تھا اور سرحدی علاقوں میں تعینات فوجی جوانوں اور افسران سے ملاقاتوں کے اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر وہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر گئے۔
حالیہ مہینوں میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کی سرحدی افواج کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات کے باعث کشیدگی میں اضافہ ہوا جس میں دونوں جانب سے متعدد اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
کشمیر میں سرحدی کشیدگی میں اضافہ رواں سال اگست کے اوائل میں ہوا جب ایک حملے میں پانچ بھارتی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جس کا الزام بھارت نے پاکستان پر لگایا لیکن اسلام آباد روز اول ہی سے اس کی تردید کرتا رہا ہے۔
اس واقعے کے بعد لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات وقفے وقفے سے جاری رہے جس میں پاکستان کے مطابق اُس کے ایک فوجی افسر سمیت کم از کم چار اہلکار ہلاک ہوئے جب کہ کئی شہری بھی اس کی زد میں آئے۔
دونوں ملک ایک دوسرے پر فائر بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003ء میں لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا معاہدے طے پایا تھا جس کے بعد سے اس سرحدی علاقے میں پہلی مرتبہ اس قدر کشیدگی دیکھنے میں آئی۔
تاہم دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی رواں سال ستمبر میں ملاقات کے علاوہ پاک بھارت اعلٰی سفارتی رابطوں کے بعد حالیہ ہفتوں میں ایک بار پھر صورت حال معمول پر آنا شروع ہو گئی ہے۔