سال 2018 میں بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات اتار چڑھاو کا شکار رہے ہیں۔ جب بھی مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی تو کبھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آ گیا اور کبھی غیر ریاستی عناصر آڑے آ گئے اور یوں بات چیت کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے لئے مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔
پاکستانی اور بھارتی دانشوروں کی رائے میں دونوں ملکوں کو طویل مدتی امن کی جانب غور کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات بہتر کرنے اور بداعتمادی کا سلسلہ روکنے کی اشد ضرورت ہے۔
بھارتی لکھاری اور صحافی برکھا دت جب کرتارپور راہداری کی سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کے لیے واہگہ کے راستے پاکستان پہنچیں تو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بولیں ’پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہت پیچیدہ ہیں۔ کبھی ان میں اتار آتا ہے تو کبھی چڑھاؤ۔ کبھی چار قدم آگے آتے ہیں تو چھ قدم پیچھے چلے جاتے ہیں، دونوں ملکوں کی حکومتوں کو ایک دوسرے کو سمجھنا چاہیے، بس دعا کریں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اب جلدی سے پیچھے نہ ہٹیں۔‘
سال دو ہزار اٹھارہ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول، ورکنگ باونڈری، کلبھوشن یادو، کشمیر اور بھارت کی جانب سے دریائے راوی میں اضافی پانی چھوڑے جانے کی وجہ سے کشیدگی بڑھی اور کئی بار تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا لیکن پاکستان میں رواں سال پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ماضی کی تمام باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے پڑوسی ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کا پیغام دیا۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ وہ تمام ہمسایہ ملکوں سے اپنے تعلقات ٹھیک کریں گے۔ اگر پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات اچھے ہوتے ہیں تو یہ برصغیر کے لیے بہتر ہے۔ اگر برصغیر میں غربت کو ختم کرنا ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ہونی چاہیے اور جتنی تجارت کریں گے، دونوں ملکوں کا فائدہ ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمارے مسائل میں سب سے اہم مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کی لیڈرشپ ٹیبل پر بیٹھ کر کوشش کرے اس مسئلے کو حل کریں۔ آپ ایک قدم ہماری طرف آئیں گے ہم دو قدم آپ کی طرف جائیں گے۔ میں یہ چاہونگا کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی ہو اور جو بھی مسائل ہیں وہ ڈائیلاگ کے ذریعے حل کیے جائیں‘۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنی حلف برادری کی تقریب میں اپنے کرکٹ کے زمانے کے دوست اور بھارتی پنجاب کے وزیر بلدیات نوجوت سنگھ سدھو کو دعوت دی، جس میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سدھو کو گلے لگا کر کہ پاکستانی حکومت کرتارپور راہداری کھولنا چاہتی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ ڈپلومیسی اور بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے کئی بار مذاکرات کا آغاز ہوا لیکن بات کسی بھی نتیجہ تک نہ پہنچ سکی۔ کرتارپور راہداری کی تقریب کو پاکستان میں بعض تجزیہ کاروں نے بہتری کی طرف پہلا قدم کہنا شروع کیا۔ سال کے گیارہویں مہینے میں ابھی جب کرتارپور راہدری کی تقریب چل رہی تھی تو بھارت کی وزیر خارجہ سُشما سوراج نے ٹوئیٹر پر اپنا پیغام دیا کہ بھارت ساوتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن کے اجلاس میں شریک نہیں ہو گا۔
’بھارت، پاکستان میں ہونے والی سارک سمٹ کانفرنس میں شرکت نہیں کریگا۔ کرتارپور راہداری پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات بحال نہیں کر سکتا، اس کے لیے پہلے پاکستان کو دہشتگردوں کی پشت پناہی چھوڑنا پڑے گی‘۔
نئی دہلی میں تعینات پاکستان کے ہائی کمیشنر سہیل محمود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان مسائل کی ایک لمبی فہرست ہے جس پر بات چیت ہوتی ہے۔ سیاسی تعلقات کے علاوہ دیگر بہت سے مسائل ہیں جن میں دونوں ملکوں کی عوام کے آپس میں رابطے اہم ہیں۔
’تاجر برادری کے روابط، مذہبی وفود کے تبادلے، فنکاروں ادیبوں کے آپس میں روابط، دونوں ملکوں کے طلبا کے تعلقات بہت اہم ہیں۔ میں پر امید ہوں کہ ان سب کا سیاسی تعلقات پر مثبت اثر پڑے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی فضا بہتر ہو گی۔‘
پاکستان میں بین الااقوامی امور کے ماہر اور دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ دونوں طرف قدامت پسند عناصر پر قابو نہ پانے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم کرنے کے عمل میں بھی رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔ پاکستان کی جانب سے راہداری کی بنیاد رکھ کر بہتر قدم اٹھایا گیا جس کا بھارتی حکومت نے بھی مثبت جواب دیا اور انکی سائیڈ پر ہونے والی تقریب میں بھارتی نائب صدر کو بھیجا۔
پروفیسر رئیس کے مطابق 'ابھی چونکہ وہاں انتخابات ہیں دیکھتے ہیں کہ سنہ دو ہزار انیس میں کون حکومت بناتا ہے اُس کے بعد کیا حقیقت پسندی دکھاتے ہیں؟ بھارت کو بھی اب بڑے فیصلے کرنا ہونگے۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق سرحدی کشیدگی میں کمی اور ممبئی حملے کی تحقیقات میں رکاوٹیں وہ مسائل ہیں جو کشمیر اور سر کریک جیسے بڑے مسائل تک بات بڑھنے ہی نہیں دیتے۔ کہا جاتا ہے کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں۔ لائن آف کنٹرول پر شہریوں کو نشانہ بنانا قابل مذمت اور انسانی اقدار اور انسانی حقوق کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ تناؤ اور کشیدگی دونوں پڑوسی ممالک کے مفاد میں نہیں۔
مبصرین کے مطابق سال 2019 میں بھارت میں نئی حکومت بنے گی شاید وہ اپنی ترجیحات بدلے اور وزیراعظم عمران خان کی طرح ماضی کی باتوں کو پس پشت ڈال کر آگے بڑہنے کی بات کرے۔