پاکستان اور بھارت کے درمیان بدھ سے اسلام آباد میں دو طرفہ تجارتی امور پر مذاکرات ہورہے ہیں۔ ان مذاکرات میں بھارتی وفد کی قیادت سیکرٹری کامرس کررہے ہیں جب کہ پاکستانی وفد سیکرٹری تجارت ظفر محمود کی سربراہی میں مذاکرات میں شامل ہوگا۔
لاہور چیمبرز آف کامرس کی جس کمیٹی نے سیکرٹری تجارت کو ان مذاکرات سے پاکستانی تاجروں کی توقعات سے آگاہ کیا، آفتاب احمد ووہرہ اس کمیٹی میں شامل تھے۔ اُنہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستانی تاجر اور صنعتکار چاہتے ہیں کہ پاک بھارت تجارتی مذاکرات کے ایجنڈے میں ایک تو یہ بات شامل کی جائے کہ بھارت کی طرف سے ویزے اور سیکورٹی سے متعلق تاجروں اور صنعت کاروں کو جو دشواریاں ہیں وہ ختم ہونی چاہیے۔
آفتاب احمد ووہرہ نے دوسری تجویز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ مصالحتی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق ہے جو دونوں ملکوں کے تاجروں کے درمیان کسی ممکنہ تنازعے کا تصفیہ کرائے گی۔’’ہمارا موقف ہے کہ اس کمیٹی میں سرکاری نمائندوں کے ساتھ ساتھ چیمبرز کے مندوبین بھی شامل ہوں۔ تیسری تجویز کا ذِ کر کرتے ہوئے آفتاب احمد ووہرہ نے کہا کہ تاجر اور صنعت کار چاہتے ہیں کہ درآمدات کے حوالے سے ایک منفی فہرست جاری ہوجائے جس میں تمام ممنوعہ آئٹمز شامل ہوں تاکہ تاجر اور صنعت کار باقی سب آئٹمز درآمد کرسکیں۔‘‘
تقیسم ِ ہند سے پہلے بھی برصغیر میں شہروں کے درمیان تجارت کے لیے گرینڈ ٹرنک روڈ یعنی جی ٹی روڈ خاصی معروف تھی اور جب پاکستان بنا تو اسی سڑک پر واہگہ اٹاری بارڈر قائم ہوگیا۔1947 کے بعد کئی برس تک پاکستان اور بھارت کے مابین اس بارڈر کے ذریعے تجارت ہوتی رہی تاہم بعد ازاں دونوں ملکوں کے تعلقات میں آنے والے نشیب وفراز کے نتیجے میں واہگہ اٹاری کے راستے تجارت بھی متاثر ہوئی۔
آفتاب احمد ووہرہ نے ، جو کہ پاک انڈیا ٹریڈ پروموشن کمیٹی کے چیئر مین بھی ہیں، بتایا کہ اس وقت کراچی سے سمندر کے راستے ، واہگہ سے ٹرین کے ذریعے یا پھر ہوائی جہاز کے راستے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان 1940آئٹمز کی تجارت کے معاہدے موجود ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ واہگہ بارڈر کے ذریعے سڑک کے راستے 108 آئٹمز کی تجارت بھی ہوسکتی ہے۔
لاہور چیمبرز آف کامرس کی طرف سے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین سالانہ تقریباً دو ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے جس میں سے ایک ارب پچپن کروڑ ڈالر مالیت کی پاکستان کی درآمدات ہیں اور پینتالیس کروڑ ڈالر مالیت کی بھارت کو برآمدات ہیں۔ پاکستان بھارت سے بڑے آئٹمز جو درآمد کرتا ہے اُن میں روئی اور سویا بین شامل ہیں جبکہ سبزیاں اور گوشت کے لیے جانور سمیت دیگر آئٹمز نسبتاً چھوٹے آئٹمز شمار ہوتے ہیں۔ پاکستان کی برآمدات کا بڑا حصہ جن آئٹمز پر مشتمل ہے اُن میں چھوہارے ، جڑی بوٹیاں اور کیمیکلز شامل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سیمنٹ کی برآمدات جاری تو ہیں مگر کوشش ہو رہی ہے کہ بھارت کو واہگہ بارڈر کے ذریعے سڑک کے راستے بھی سیمنٹ برآمد کرنے کی اجازت مل جائے۔ چیمبرز کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ وہ اُمید کرتے ہیں کہ جلد ہی یہ اجازت مل جائے گی۔
پاک انڈیا ٹریڈ پرموشن کمیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے آفتاب احمد ووہرہ نے کہا کہ یہ ادارہ تجارت برائے امن کے عنوان سے پاک بھارت تجارت میں اضافے کے لیے کام کرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تجارتی خسارے کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ امریکہ اور جرمنی جیسے چند ملکوں کو چھوڑ کر دُنیا کے بیشتر ملکوں کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ موجود ہے ان میں چین ، جاپان اور جنوبی کوریا سمیت بہت سے ملک شامل ہیں۔’’اگر پاکستان میں تاجر کو کسی دوسرے ملک سے ایک چیز ایک ڈالر میں ملتی ہے اور بھارت سے وہی چیز ستر سینٹ سے لیکر پچاسی سینٹ میں مل جاتی ہے تو صاف ظاہر ہے وہ کیا فیصلہ کرے گا ۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت سے تجارت میں یہ سہولت بھی موجود ہے کہ تاجر کو درآمد کرنے والی چیز کا محض دو ہفتے کا سٹاک اپنے پاس رکھنا پڑتا ہے جبکہ کسی دور پار کے ملک سے اگر وہی چیز تاجر منگوائے تو اس کو دو ماہ کا اسٹاک اپنے پاس رکھنا ہوتا ہے جو کہ کاروبار پر بوجھ ثابت ہوتا ہے‘‘۔ آفتاب ووہرہ کا استدلال تھا کہ مستقبل میں اگر پاک بھارت تجارت بڑھ جائے تو ممکنہ طور پر پاکستان کا تجارتی خسارہ کم ہوجائےگا۔
کافی عرصہ سے واہگہ اٹاری سرحد کے دونوں طرف ڈرائی پورٹ زیر ِ تعیمر ہیں۔ آفتاب احمد ووہرہ نے بتایا کہ اُمید کی جارہی ہے کہ نیشنل لاجسٹک سیل اس برس کے آخر تک ڈرائی پورٹ کی تعمیر مکمل کرلے گا جس سے زمینی راستے تجارت کے لیے ٹرکوں کو علیحدہ دروازہ فراہم ہوجائے گا۔
خیال رہے کہ اس وقت واہگہ بارڈر پر ایک ہی دروازہ ہے جسے پاکستانی طرف باب ِ آزادی کہتے ہیں۔ اس دروازے کو مارچ پاسٹ کی تیاری کے لیے روزانہ تین بجے بند کردیا جاتا ہے لہذا اس وقت کے بعد کوئی ٹرک آجا نہیں سکتا۔ ایک سال پہلے معاہدہ ہوا تھا کہ دونوں ملکوں کے مال بردار ٹرک سامان اُتارنے کے لیے ایک دوسرے کی سرحد کے اندر آجاسکیں گے اس شرط کے ساتھ کہ یہ ٹرک اُسی روز اپنے ملک واپس چلے جائیں گے۔
قبل ازیں جب ان ٹرکوں کو اجازت نہیں تھی تو مزدور تجارتی سامان کندھوں پر لاتے لے جاتے تھے۔ اب یہ مزدور صرف افغانستان کا سامان بھارت پہنچانے کا کام کرتے ہیں کیونکہ افغانستان کے سامان کو ابھی ٹرکوں کے ذریعے بھارت بھجوانے کی اجازت موجود نہیں ہے۔ آفتاب ووہرہ نے بتایا اب تک ایک دن میں زیاہ سے زیادہ ڈیڑھ سو ٹرک تجارتی سامان لے کر آتے اور واپس جاتے ہیں جبکہ ڈرائی پورٹ بننے کے بعد اندازہ ہے کہ ایک ہزار ٹرک تک ایک دن میں آجاسکیں گے۔