پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر دستخط

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر دستخط

ایران سے قدرتی گیس کی پاکستان کو فراہمی کے لیے پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر دونوں ملکوں کے نمائندوں نے ایک روز قبل ترکی میں دستخط کیے جس میں پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیر برائے پٹرولیم نوید قمر نے کی۔ ایک سرکاری بیان میں انھوں نے اس پیش رفت کو ایک تاریخی کارنامہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں یہ معاہدہ سنگ میل ثابت ہو گا۔

وفاقی وزیر نے اُمید ظاہر کی ہے کہ گیس پائپ لائن منصوبے پر جلد کام شروع ہو گا تاکہ طے شدہ وقت پر پاکستان کو گیس کی فراہمی شروع ہو جائے ۔

معاہدے کے مطابق ایران جو روس کے بعد دنیا میں گیس کے ذخائر رکھنے والا دوسرا بڑا ملک ہے پاکستان کو روزانہ 70کروڑ کیوبک فیٹ سے زائد گیس فراہم کر ے گا۔ اس کی فراہمی 2015ء کے وسط تک پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور سندھ کوشروع کی جائے گی تاکہ توانائی کے بحران کا شکار ملک کی آئندہ ضروریات پوری ہو سکیں۔

سات ارب ڈالر سے زائد لاگت کا یہ منصوبہ دراصل 1990ء میں تشکیل پانا تھا جس میں پہلے بھارت بھی شامل تھا لیکن مبصرین کے مطابق دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تاریخی عدم اعتماد اور نئی دلی کا امریکہ کے ساتھ پر امن جوہری تعاون کا معاہدہ طے پاجانا وہ عوامل ہیں جس کے باعث بھارت نے منصوبے سے علیحدگی اختیار کر لی۔

پاکستان بھی امریکہ سے اسی نوعیت کے معاہدے کا مطالبہ کر رہا ہے جو صدر زرداری نے گذشتہ روز امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈینس بلئیر سے ملاقات میں دہرایا اور اسے پاکستان کو درپیش توانائی کے بحران کے حل کے لیے اہم قرار دیا ۔

معاہدے کے مطابق اب اگر بھارت منصوبے میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو پاکستان اس سے راہ داری فیس لے سکتا ہے۔


پاکستان کی وزارت پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے سابق سیکرٹری ڈاکٹر گلفراز احمد نے وائس آف امریکہ کو ایران سے گیس درآمد کرنے کے اس منصوبے کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کوان دنوں توانائی کی شدت کا سامنا ہے اور ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

ڈاکٹر گلفراز نے کہا کہ پاکستان کی توانائی کی کل ضروریات کا 50 فیصد گیس سے حاصل ہونے والی توانائی سے پورا کیا جاتا ہے اور اُن کے بقول آئندہ سالوں میں ملکی ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے مزید گیس درآمد کرنے کی ضرورت بھی پڑے گی۔

پاکستان اور ایران کے درمیان اس دوطرفہ معاہدے پر کسی تیسرے ملک یعنی ترکی میں دستخط کیے جانے کے بارے میں ڈاکٹر گلفراز کا کہنا ہے کہ اُنھیں یہ لگتا ہے کہ ترکی نے اس معاہد ے کے سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان کردار اداکیا ہے ۔ تاہم اُنھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں حتمی طور پرکچھ نہیں کہہ سکتے۔

ایران سے پاکستان تک بچھائی جانے والی گیس پائپ لائن صوبہ بلوچستان سے گزر کر ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچے گی ۔ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر نادر بلوچ کا کہنا ہے کہ اُن کے صوبے میں امن وامان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں اس منصوبے کے مستقبل پر سوالیہ نشان برقرار رہیں گے۔