پاکستانی سرزمین پر بھی لگ بھگ 800 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھائی جانی ہے جس پر ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ آئیں گے اور ایران نے اس کام کے لیے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر قرضہ دینے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اپنے ایرانی ہم منصب محمود احمدی نژاد کے ہمراہ طویل عرصے سے تعطل کے شکار پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح پیر کو ایران کے سرحدی علاقے گبد میں کیا۔
منصوبے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے صدر زرداری کے ہمراہ ایران جانے والے وفد میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، وزیرخارجہ حنا ربانی کھر اور وزیر اعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین بھی شامل تھے۔
ساڑھے سات ارب ڈالر لاگت کے منصوبے کے تحت ایران کے جنوب میں پارس گیس فیلڈ کے ذخائر سے پاکستان کو قدرتی گیس برآمد کی جائے گی۔
ایران پاکستانی سرحد تک 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھا چکا ہے جب کہ پاکستانی سرزمین پر بھی لگ بھگ 800 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھائی جانی ہے جس پر ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ آئیں گے اور ایران نے اس کام کے لیے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر قرضہ دینے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے باعث امریکہ نے اس کے تیل کے شعبے میں سرمایہ کاری پر بعض تعزیرات عائد کر رکھی ہیں اور واشنگٹن پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتا آیا ہے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر پیش رفت کی خبروں کے بعد حال ہی میں امریکی عہدیداروں کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ اسلام آباد کو تہران کے ساتھ کسی بھی ایسے منصوبے میں شامل ہونے سے گریز کرنا چاہیئے جو پابندیوں کی زد میں آسکتا ہو۔
تاہم پاکستانی حکام یہ کہتے آئے ہیں کہ امریکہ سمیت بین الاقوامی تحفظات کے باوجود ایران سے گیس درآمد کے اس منصوبے پر عمل کیا جائے گا کیوں کہ ان کے بقول یہ ‘ملکی مفاد’ میں ہے۔
پاکستانی وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل کے مشیر ڈاکٹر عاصم حسین نے سرکاری میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ملک کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایران سے گیس کی درآمد کا منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
’’جب گیس درآمد شروع ہو گی تو پاکستان کی شرح نمو پانچ فیصد تک پہنچ جائے گی، اور جو ہماری صنعت توانائی کے بحران کی وجہ سے نہیں چل رہی ہے تو اس کا پہیہ بھی گھومے گا۔‘‘
اگر یہ منصوبہ طے شدہ وقت کے مطابق مکمل ہوا تو پاکستان کو دسمبر 2014ء میں ایران سے گیس ملنا شروع ہو جائے گی۔ معاہدے کے مطابق جو ملک منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ بنا اُسے بھاری جرمانہ دینا ہو گا۔
پاکستانی حکام اور صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ توانائی کے شدید بحران نے نا صرف مقامی صنعت کو بری طرح متاثر کیا بلکہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی آئی ہے۔
توانائی کے اس بحران پر قابو پانے میں امریکہ بھی پاکستان کی معاونت کر رہا ہے اور حال ہی میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے کہا تھا کہ واشنگٹن کے تعاون سے جاری منصوبوں کی باعث رواں سال کے اختتام پر پاکستان کے قومی گرڈ میں 900 میگا واٹ اضافی بجلی شامل ہو سکے گی۔
منصوبے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے صدر زرداری کے ہمراہ ایران جانے والے وفد میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، وزیرخارجہ حنا ربانی کھر اور وزیر اعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین بھی شامل تھے۔
ساڑھے سات ارب ڈالر لاگت کے منصوبے کے تحت ایران کے جنوب میں پارس گیس فیلڈ کے ذخائر سے پاکستان کو قدرتی گیس برآمد کی جائے گی۔
ایران پاکستانی سرحد تک 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھا چکا ہے جب کہ پاکستانی سرزمین پر بھی لگ بھگ 800 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھائی جانی ہے جس پر ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ آئیں گے اور ایران نے اس کام کے لیے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر قرضہ دینے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے باعث امریکہ نے اس کے تیل کے شعبے میں سرمایہ کاری پر بعض تعزیرات عائد کر رکھی ہیں اور واشنگٹن پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتا آیا ہے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر پیش رفت کی خبروں کے بعد حال ہی میں امریکی عہدیداروں کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ اسلام آباد کو تہران کے ساتھ کسی بھی ایسے منصوبے میں شامل ہونے سے گریز کرنا چاہیئے جو پابندیوں کی زد میں آسکتا ہو۔
تاہم پاکستانی حکام یہ کہتے آئے ہیں کہ امریکہ سمیت بین الاقوامی تحفظات کے باوجود ایران سے گیس درآمد کے اس منصوبے پر عمل کیا جائے گا کیوں کہ ان کے بقول یہ ‘ملکی مفاد’ میں ہے۔
پاکستانی وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل کے مشیر ڈاکٹر عاصم حسین نے سرکاری میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ملک کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایران سے گیس کی درآمد کا منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
’’جب گیس درآمد شروع ہو گی تو پاکستان کی شرح نمو پانچ فیصد تک پہنچ جائے گی، اور جو ہماری صنعت توانائی کے بحران کی وجہ سے نہیں چل رہی ہے تو اس کا پہیہ بھی گھومے گا۔‘‘
اگر یہ منصوبہ طے شدہ وقت کے مطابق مکمل ہوا تو پاکستان کو دسمبر 2014ء میں ایران سے گیس ملنا شروع ہو جائے گی۔ معاہدے کے مطابق جو ملک منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ بنا اُسے بھاری جرمانہ دینا ہو گا۔
پاکستانی حکام اور صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ توانائی کے شدید بحران نے نا صرف مقامی صنعت کو بری طرح متاثر کیا بلکہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی آئی ہے۔
توانائی کے اس بحران پر قابو پانے میں امریکہ بھی پاکستان کی معاونت کر رہا ہے اور حال ہی میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے کہا تھا کہ واشنگٹن کے تعاون سے جاری منصوبوں کی باعث رواں سال کے اختتام پر پاکستان کے قومی گرڈ میں 900 میگا واٹ اضافی بجلی شامل ہو سکے گی۔