پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے بہت سے نکات پر ابھی اُس طرح سے کام نہیں ہو رہا ہے جس رفتار سے ہونا چاہیئے۔
پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل اور سلامتی سے متعلق دیگر اہم معاملات پر غور کے لیے جمعرات کو وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔
وزیراعظم نے اجلاس میں کہا کہ ’’نیشنل ایکشن پلان کا کچھ حصہ آگے بڑھ رہا ہے لیکن بہت زیادہ حصے پر فی الحال کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔‘‘
اس اجلاس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے ڈائریکٹر جنرل لفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کے علاوہ چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، گورنر اور وفاقی وزیر داخلہ سمیت دیگر متعلقہ وزراء اور عہدیداروں نے شرکت کی۔
وزیراعظم نے کسی صوبے کا نام لیے بغیر کہا کہ ملک کے کچھ صوبوں میں انسداد دہشت گردی کے لائحہ عمل پر پیش رفت ہوئی ، لیکن بعض میں ایسا نہیں ہو سکا۔
’’کسی صوبے میں (انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر) پیش رفت زیادہ ہوئی ہے، کسی میں کم ہوئی ہے اور شاید کسی میں کچھ بھی نہیں ہوئی ہے۔ تو یہ بہت ضروری ہے کہ پیش رفت سب جگہ یکساں ہو۔‘‘
اُنھوں نے چاروں صوبوں، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں پر بھی زور دیا کہ وہ اس سلسلے میں چوکس رہیں۔
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی ایک اجلاس کی قیادت کی، جس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم اور گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ شریک تھے۔
اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں کام کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں، اسلحہ لائسنز اور سکیورٹی کمپنیوں سے متعلق جہاں وفاق کی سطح پر ایک ’’ڈیٹا بیس‘‘ یا معلومات کی ضرورت ہے وہیں ان پالیسوں میں وفاق اور صوبوں میں یکسانیت بھی ہونی چاہیئے۔
بعد ازاں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں چوہدری نثار نے کہا کہ پاکستان میں کئی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیں بغیر اجازت کے کام کر رہی تھیں۔
اُنھوں نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں کام کرنے والی مقامی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے بھی ایک نظام وضع کیا جائے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کوائف کا اندارج کرنے والے قومی ادارے ’نادرا‘ کے ذریعے ایک ’ڈیٹا بیس‘ بنانے کو تیار ہے۔
رواں ہفتے ہی وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں تنظیم اتحاد المدارس کے علما کے علاوہ فوج کے سربراہ اور انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے ڈائریکٹر جنرل نے بھی شرکت کی تھی۔
اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دینی مدارس کے اندارج کا عمل سہل بنانے کے علاوہ انھیں بیرون ملک سے ملنے والی مالی امداد کی نگرانی سے متعلق طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔
اس ضمن میں وفاقی حکومت تنظیم اتحاد المدارس کے وفد اور اسٹیٹ بینک کے درمیان ایک ملاقات کا بھی اہتمام کرے گی، جس میں مدارس کو بیرون ملک سے ملنے والی فنڈنگ کا طریقہ کار وضع کرنے کے علاوہ مدارس کو بینک اکاؤنٹس کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔
وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ پر عمل درآمد پاکستان کا سب سے اہم ایجنڈا ہے۔
اُنھوں نے وفاق المدارس کی نمائندہ تنظیم کو یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ دینی مدرسوں میں رائج نظام تعلیم میں اصلاحات کے لیے وفاقی حکومت ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔