عمران خان نے غیر جانبدار عبوری حکومت کی تشکیل اور بروقت انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی عبوری حکومت تسلیم نہیں کی جائے گی جو ان کے بقول مک مکا سے تشکیل دی جائے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہیں اور توقع کی جا رہی تھی کہ آئندہ عام انتخابات مئی میں منعقد ہوں گے۔ لیکن منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری کے انتخابی اصلاحات کے مطالبے اور رینٹل پاور کیس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کے احکامات کے بعد ملک کے سیاسی منظر نامے میں غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔
اسی اثناء میں سابق کرکٹر عمران خان کی نوجوانوں میں مقبول سیاسی جماعت تحریک انصاف نے بھی حکومت سے انتخابات کے فوری اعلان کا مطالبہ کرتے ہوئے سات نکاتی ایجنڈا پیش کر دیا ہے۔
منگل کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور حکومت نے دیکھ لیا ہے کہ اس کے پاس کیا مینڈیٹ رہ گیا ہے۔
انھوں نے غیر جانبدار عبوری حکومت کی تشکیل اور بروقت انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی عبوری حکومت تسلیم نہیں کی جائے گی جو ان کے بقول مک مکا سے تشکیل دی جائے۔
عمران خان نے صدر آصف زرداری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موجودگی میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔
’’ آصف زرداری آئین اور قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں ان کے خلاف ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ یہ دو عہدے لے کر بیٹھے ہوئے ہیں صرف صدر کا اس صورت میں رہنا بنتا تھا الیکشن میں کہ وہ غیر جانبدار ہو، یہ تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں دو عہدے لے کر بیٹھے ہوئے ہیں ساڑھے چار سال سے، کیسے ان کے ہوتے ہوئے صاف شفاف انتخابات ہوسکتے ہیں۔‘‘
تحریک انصاف کے سربراہ نے الیکشن کمیشن کے کردار پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تشکیل نو کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں قبل از انتخابات دھاندلی کررہی ہیں جس کی انھوں نے الیکشن کمیشن سےشکایت کی ہے لیکن اس پر کوئی جواب نہیں ملا۔
عمران خان نے حکومت سے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے رینٹل پاور کیس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کے احکامات پر فوری کارروائی کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ انھوں نے بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری کے قتل و غارت میں ملوث عناصر کی فوری گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا۔
لیکن وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں وزیراعظم کی گرفتاری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’اس آرڈر کے بعد وہ اب بھی وزیراعظم ہیں، لہذا لوگوں کی اطلاع کے لیے… اگر کوئی وسوسہ ہے وہ نکال دیتا ہوں کہ وہ وزیراعظم ہیں۔‘‘
ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کے بارے میں حزب اختلاف کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کا بھی ایک اہم اجلاس ہوا جس میں کہا کہ جمہوری عمل کے تسلسل پر اتفاق کیا گیا ہے۔
بظاہر اس ساری صورت حال ملک میں بے یقینی کی سی فضا ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنی پارٹیوں کے مشاروتی اجلاس بھی بلا لیے ہیں۔
اسی اثناء میں سابق کرکٹر عمران خان کی نوجوانوں میں مقبول سیاسی جماعت تحریک انصاف نے بھی حکومت سے انتخابات کے فوری اعلان کا مطالبہ کرتے ہوئے سات نکاتی ایجنڈا پیش کر دیا ہے۔
منگل کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور حکومت نے دیکھ لیا ہے کہ اس کے پاس کیا مینڈیٹ رہ گیا ہے۔
انھوں نے غیر جانبدار عبوری حکومت کی تشکیل اور بروقت انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی عبوری حکومت تسلیم نہیں کی جائے گی جو ان کے بقول مک مکا سے تشکیل دی جائے۔
عمران خان نے صدر آصف زرداری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موجودگی میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔
’’ آصف زرداری آئین اور قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں ان کے خلاف ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ یہ دو عہدے لے کر بیٹھے ہوئے ہیں صرف صدر کا اس صورت میں رہنا بنتا تھا الیکشن میں کہ وہ غیر جانبدار ہو، یہ تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں دو عہدے لے کر بیٹھے ہوئے ہیں ساڑھے چار سال سے، کیسے ان کے ہوتے ہوئے صاف شفاف انتخابات ہوسکتے ہیں۔‘‘
تحریک انصاف کے سربراہ نے الیکشن کمیشن کے کردار پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تشکیل نو کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں قبل از انتخابات دھاندلی کررہی ہیں جس کی انھوں نے الیکشن کمیشن سےشکایت کی ہے لیکن اس پر کوئی جواب نہیں ملا۔
عمران خان نے حکومت سے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے رینٹل پاور کیس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کے احکامات پر فوری کارروائی کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ انھوں نے بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری کے قتل و غارت میں ملوث عناصر کی فوری گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا۔
لیکن وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں وزیراعظم کی گرفتاری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’اس آرڈر کے بعد وہ اب بھی وزیراعظم ہیں، لہذا لوگوں کی اطلاع کے لیے… اگر کوئی وسوسہ ہے وہ نکال دیتا ہوں کہ وہ وزیراعظم ہیں۔‘‘
ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کے بارے میں حزب اختلاف کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کا بھی ایک اہم اجلاس ہوا جس میں کہا کہ جمہوری عمل کے تسلسل پر اتفاق کیا گیا ہے۔
بظاہر اس ساری صورت حال ملک میں بے یقینی کی سی فضا ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنی پارٹیوں کے مشاروتی اجلاس بھی بلا لیے ہیں۔