سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بلوچستان میں سونے اور دیگر معدنیات کی تلاش کے اس معاہدے کو قواعد و ضوابط سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے تحت معدنیات کی تلاش کا کام غیر قانونی ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی سپریم کورٹ نے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں سونے اور دیگر معدنیات کی تلاش کے لیے غیر ملکی کمپنی کے ساتھ 1993ء کے ’ریکوڈک‘ معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک کے مقام میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کے اس منصوبے کو ’ریکوڈک معاہدے‘ کا نام دیا گیا تھا۔
گزشتہ ماہ اس مقدمے پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا اور عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کو اپنے مختصر فیصلے میں حکومت پاکستان اور ایک غیر ملکی کمپنی کے درمیان اس معاہدے کو قواعد و ضوابط سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت معدنیات کی تلاش کا کام غیر قانونی ہے۔
یہ معاہدہ ٹیتھین کاپر کپمنی اور حکومت پاکستان میں ہوا تھا۔ جس کے بعد ریکوڈک کے علاقے میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا کام کینیڈا اور چلی کی کمپنیوں کے اتحاد ٹیتھین کاپر کمپنی نے 2006ء میں شروع کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق کمپنی نے ان قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی کل مالیت کا تخمینہ ایک سو ارب ڈالر لگایا تھا، تاہم مقامی ماہرین کا دعوی ٰہے کہ یہ اندازہ درست نہیں کیوں کہ اُن کے بقول علاقے میں ایک ہزار ارب ڈالر مالیت کے ذخائر موجود ہیں۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر پاکستان کے ایک نامور جوہری سائنسدان اور سرکاری منصوبہ بندی کمیشن کے رکن ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے عدالت کو بتایا تھا کہ پاکستان ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کو نکالنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اس لیے اسے اس کام کے لیے بیرونی کمپنیوں کا سہارا نہیں لینا چاہیئے۔
پاکستان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ چاغی کے دور افتادہ علاقے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر سے موثر انداز میں استفادہ کیا جائے تو اس سے ہونے والی آمدن پاکستان کو نا صرف اربوں ڈالر کے بیرونی قرضوں سے نجات د لا سکتی ہے بلکہ یہ منصوبہ بلوچستان کے اقتصادی و سیاسی مسائل کا دیرپا حل ڈھونڈنے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک کے مقام میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کے اس منصوبے کو ’ریکوڈک معاہدے‘ کا نام دیا گیا تھا۔
گزشتہ ماہ اس مقدمے پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا اور عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کو اپنے مختصر فیصلے میں حکومت پاکستان اور ایک غیر ملکی کمپنی کے درمیان اس معاہدے کو قواعد و ضوابط سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت معدنیات کی تلاش کا کام غیر قانونی ہے۔
یہ معاہدہ ٹیتھین کاپر کپمنی اور حکومت پاکستان میں ہوا تھا۔ جس کے بعد ریکوڈک کے علاقے میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا کام کینیڈا اور چلی کی کمپنیوں کے اتحاد ٹیتھین کاپر کمپنی نے 2006ء میں شروع کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق کمپنی نے ان قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی کل مالیت کا تخمینہ ایک سو ارب ڈالر لگایا تھا، تاہم مقامی ماہرین کا دعوی ٰہے کہ یہ اندازہ درست نہیں کیوں کہ اُن کے بقول علاقے میں ایک ہزار ارب ڈالر مالیت کے ذخائر موجود ہیں۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر پاکستان کے ایک نامور جوہری سائنسدان اور سرکاری منصوبہ بندی کمیشن کے رکن ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے عدالت کو بتایا تھا کہ پاکستان ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کو نکالنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اس لیے اسے اس کام کے لیے بیرونی کمپنیوں کا سہارا نہیں لینا چاہیئے۔
پاکستان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ چاغی کے دور افتادہ علاقے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر سے موثر انداز میں استفادہ کیا جائے تو اس سے ہونے والی آمدن پاکستان کو نا صرف اربوں ڈالر کے بیرونی قرضوں سے نجات د لا سکتی ہے بلکہ یہ منصوبہ بلوچستان کے اقتصادی و سیاسی مسائل کا دیرپا حل ڈھونڈنے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔