پاکستان نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں ریکارڈ کمی کر دی ہے اور اس وقت ڈالر لگ بھگ 121 روپے تک پہنچ گیا ہے جب کہ اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قیمت 115 سے بڑھ کر 120 کی ریکارڈ سطح پر آ گئی ہے۔
پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے اور برآمدات گرنے کے پیش نظر اقتصادی ماہرین ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کم کرنے کا مشورہ دے رہے تھے ۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت کے دور میں ملکی برآمدات میں مسلسل کمی ہوتی رہیں ، جس کے بارے میں برآمدکندگان کا یہ کہنا تھا کہ شرح تبادلہ بلند ہونے کی وجہ سے ان کی مصنوعات دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر پا رہیں تھیں۔
سابقہ نواز حکومت نے کچھ عرصہ پہلے روپے کے شرح تبادلہ میں غیر اعلانیہ کمی کی تھی جس کے بعد ڈالر 108 روپے سے مہنگا ہو کر 114 کے لگ بھگ ہو گیا تھا۔ بظاہر اس اقدام کا مقصد برآمدات میں اضافہ اور قرضہ دینے والے عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ اور مطالبہ تھا۔
اقتصادی رپورٹس کے مطابق پاکستان کے پاس اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں، جب کہ اس مہینے اسے ساڑھے تین سے چار ارب ڈالر کے قریب غیر ملکی قرضوں کی اقساط بھی ادا کرنی ہیں۔
اقتصادی اور ترقیاتی قرضوں کے علاوہ مقامی منڈی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بڑی مقدار میں بیرونی ملکوں سے مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں جس سے تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی کرنسی کی اوپن مارکیٹ میں یومیہ 10 کروڑ ڈالر کا لین دین ہوتا ہے، جو روپے پر دباؤ کا سبب بنتا ہے۔
اگرچہ نگران حکومت نے روپے کی قدر میں کمی کا سرکاری طور پر تو اعلان نہیں کیا لیکن ملکی بینک نئے نرخوں پر کرنسی کا لین دین کر رہے ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی سے ملکی منڈی پر کیا اثرات پڑیں گے، عام لوگ اس سے کس حد تک متاثر ہوں گے اور یہ کہ قدر میں کمی ملکی معیشت کو کس قدر سہارا دے سکتی ہے اس بارے میں پاکستان کے ممتاز ماہرین اقتصادیات اور دو سابق وزرائے خزانہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کی۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت کی قرضے لینے اور روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر سہارا د دینے کی پالیسی کو روپے کی قدر میں کمی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت روپے کی قدر کو مصنوعی سہارا نہ دیتی اور تمام معاملات اسٹیٹ بنک کو کرنے دیتی تو حالات اس نہج تک نہ پہنچتے۔
ای کامرس گیٹ وے کے صدر خورشید نظام نے کہا کہ قرضے لینے کی اس پالیسی سے فائدہ اس صورت میں ممکن تھا اگر ملکی برآمدات میں اضافہ ہوتا اور در آمدات میں کمی ہوتی اور اندرون ملک مالی استحکام ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا جس کا نتیجہ اس وقت اس کی قدر میں ریکارڈ کمی کی صورت میں نکلا۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ روپے کی قد ر میں کمی سے پاکستان پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف، عالمی بنک دوسرے غیرملکی قرضوں میں فوری طور پر اضافہ ہو جائے گا۔ ملک میں مہنگائی بڑھ جائے گی۔ بیرون ملک سے درآ مد کی جانے والی اشیا کی قیمتوں میں براہ راست اضافہ ہوگا اور عام آدمی کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔
تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ ان تمام مشکلات کے باوجود روپے کی قدر میں کمی اس اعتبار سے ملکی مفاد میں ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ اپنے قرضوں کی ادائیگی کرتا رہے گا اور بین الاقوامی طور پر اس کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی نہیں ہو گی ۔ کیوں کہ اگر اس کی کریڈٹ ریٹنگ کی شرح گرنا شروع ہو گئی تو اس سے ملک کے لیے ایک انتہائی مشکل صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5