ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات سے پہلے کاروباری اعتماد میں کمی واقع ہوئی ہے اور بیرونی سرمایہ کاری تقریباً رک سی گئی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ عام انتخابات سے پہلے ایسا ہونا ایک معمول کی بات ہے لیکن جمہوریت مضبوط ہو تو خدشہ وقتی ثابت ہوتے ہیں۔ اور ووٹر جانتے ہیں کہ آئندہ حکومت کی اقتصادی ترجيحات کیا ہوں گی۔
تاہم سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے چیف ایکزیکٹو ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کہتے ہیں کہ پاکستان میں اکثر یہ خدشات رہتے ہیں کہ آیا انتخابات شفاف ہوں گے، کیا منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ اور یہی خدشات کاروباری اعتماد کو غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار رکھتے ہیں۔ سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری بند کر دیتے ہیں۔ برآمد کنندگان اس اندیشے کے پیش نظر اپنے آرڈر نہیں دیتے کہ ممکن ہے کہ وقت پر نہ مل سکیں۔ ترقیاتی بجٹ روک دیئے جاتے ہیں اور چند ماہ کے لئے ہر اقتصادی سر گرمی رک سی جاتی ہے۔ پاکستان اس وقت اسی مرحلے سے گزر رہا ہے۔
پاکستان میں اکنامک ایڈوائزری کونسل کے چیئر مین اور سابق مشیرِ خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ معمول کی بات ہے مگر انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتوں کے درمیان رسہ کشی اور تاحال نگران حکومت قائم نہ ہونا اس غیر یقینی صورتِ حال میں اضافے کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ جونہی نئی حکومت وجود میں آئے گی اور سرمایہ کار اس کی پالیسیوں کا ادراک کریں گے، ان کی گھبراہٹ دور ہو جائے گی۔
پاکستان کی مو جودہ حکومت نے روپے کی قدر میں کمی کی ہے مگر ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا بہت دیر میں اور بہت کم کیا گیا۔ شوکت ترین کہتے ہیں کہ حکومت نے روپے کی قدر میں مصنوعی اضافہ برقرار رکھ کے چار برس تک ملکی تجارت کو پنپنے نہیں دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کرنسی کی قدر کا تعین شرح ِتبادلہ سے کیا جاتا ہے اور ایسا نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات 2013 میں 25 ارب سے کم ہو کر 21 یا 22 ارب پر آگئیں۔
روپے کی قدر میں کمی کا ملک کو کیا فائدہ ہوا، اس بارے میں عابد سلہری کہتے ہیں کہ درآ مدات میں ہو سکتا ہے کہ کچھ بہتری آئی ہو مگر مجموعی طور پر اس کے اثرات مثبت نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چار سال تک روپے کی قدر پر بالکل توجہ نہ دینا بہتر حکمت عملی نہیں تھی۔ اور پھر یک دم روپے کی قدر میں کمی کرنے سے ہو سکتا ہے وقتی فائدہ ہوا ہو لیکن بہتر ہوتا اگر یہ کمی بتدریج کی جاتی۔
انہوں نے تیل کی عالمی قیمتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 80 ڈالر فی بیرل کو چھو رہی ہیں، اس میں پاکستان کی کرنسی کی قدر میں 13 سے 14 فیصد تک کمی اور تیل کی قیمتوں میں تقریباً 50 فیصد اضافہ دونوں مل کے مہنگا ئی کا جو طوفان لے کے آئیں گے وہ آنے والی حکومت کے لئے بھی اور پاکستان کے شہریوں کے لئے بھی ایک چیلنج ہو گا۔
پاکستان میں کاروباری اداروں کا اعتماد کب بحال ہو گا اس بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں عبوری حکومت کا قیام ابھی باقی ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان، انتخابی نتائج اور پھر ایک نئی حکومت کی تشکیل۔۔ایک طویل سلسلہ ہے جو بہت عرصے تک ملکی کاروبار پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔