پاکستان کے ایوان بالا ’سینیٹ‘ نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کو تو کثرت رائے سے منظور کر لیا، لیکن فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کے لیے توسیع سے متعلق 28 ویں آئینی ترمیم پر رائے شماری آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔
فوجی عدالتوں کی بحالی اور توسیع سے متعلق آئینی ترمیم کو بدھ کی شب قومی اسمبلی کے دو تہائی سے زائد اراکین نے منظور کر لیا تھا، جس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ اس بل کو با آسانی سینیٹ سے بھی منظور کرا لیا جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
سینیٹ کے اجلاس میں حکومت کی دو اتحادی جماعتوں جمعیت علماء اسلام (ف) اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی آئینی ترمیم کے مسودے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر عطاء الرحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کی جماعت یہ سمجھتی ہے اسلام کے نام پر دہشت گردی ایسے الفاظ قانون کا حصہ نہیں ہونے چاہیئں۔
’’ہم نے پھر درخواست کی کہ (ایسی اصطلاح) کو نکال دیا جائے اور صرف دہشت گردی کہا جائے۔‘‘
سینیٹر عطا الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’’ جو لوگ دین کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں جو مورچے میں بیٹھ کر بندوق کے نام پر اسلام چاہتے ہیں ہم ان کی مخالفت کر رہے لیکن اس کے باجود اسلام اور مذہب کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ زیادتی ہے کسی فرد اور لوگوں کے طبقے کے نام پر قانون نہیں بننا چاہیے قانون جب بھی بنے وہ سب کے لیے یکساں ہونا چاہیئے۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیموں کی مخالفت کی باوجود پیر کو قومی اسمبلی کے 255 اراکین نے فوجی عدالتوں کی بحالی اور توسیع سے متعلق مسودہ قانون کی منظوری دی جب کہ چار اراکین نے مخالفت کی۔
حقوق انسانی کی تنظیم ’ہیومین رائیٹس کمیشن آف پاکستان‘ کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں سویلین عدالتی نظام کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔
’’جب پہلی بار فوجی عدالتوں اور ملٹری ایکٹ کی ترامیم آئیں تھیں، اس وقت سے ہم اس کی مخالفت کر رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے جو انصاف کی اصولوں کے تقاضے ہیں وہ پورے نہیں ہوتے ہیں اور اب بھی ہمارا موقف وہی ہے اور افسوس یہ ہے کہ حکومت نے دو سال گزارے اور جو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ (سویلین) عدالتی نظام میں اصلاحات لائیں گے اس طرف انہوں نے کچھ نہیں توجہ دی۔‘‘
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے، جن سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔
فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق ترمیمی بل میں اس مرتبہ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ کسی بھی ملزم کو گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندر عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا، جب کہ ملزم کو یہ بھی بتانا ضروری ہو گا کہ اُسے کس الزام میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ ملزم اپنی مرضی کے وکیل کی خدمات بھی حاصل کر سکے گا۔
پشاور میں دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ملک میں دو سال کی مدت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئینی ترمیم منظور کی گئی تھی۔
جنوری 2015ء میں قائم کی گئی فوجی عدالتوں کی دو سالہ مدت رواں سال سات جنوری کو ختم ہو گئی تھی جس کے بعد سے ان عدالتوں میں توسیع کے لیے حکومت نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت شروع کر دی تھی۔
حکومت کا موقف رہا ہے کہ وہ فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق آئین میں ترمیم کی منظوری اتفاق رائے سے چاہتی ہے تاکہ یہ واضح پیغام دیا جا سکے کہ دہشت گردی کے خلاف تمام جماعتیں متحد ہیں۔