پاکستان کی حکومت اور ملک میں سرگرم طالبان عسکریت پسندوں کے درمیان ابتدائی امن بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
حکومت کی ترجمانی کرنے والے مصالحت کاروں اور خود طالبان نے ان رابطوں کی تصدیق کی ہے جن میں قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں فوج کی موجودگی مرکزی نقطہ بنی ہوئی ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ اس علاقے سے سکیورٹی فورسز کی واپسی عسکریت پسندوں کا اولین مطالبہ رہا ہے۔
دو برس قبل جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف شروع کی گئی بھرپور فوجی کارروائی سے پہلے وفاق کے زیر انتظام یہ علاقہ پاکستانی طالبان کا گڑھ مانا جاتا تھا۔
فریقین نے زیر حراست جنگجوؤں کے تبادلے پر بھی غور کیا ہے۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران سکیورٹی فورسز کی طرف سے وزیرستان سمیت ملک کے مختلف حصوں میں آپریشنز کے دوران سینکڑوں شدت پسندوں کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں مشتبہ جنگجوؤں کو حراست میں لینے کے دعوے بھی کیے گئے، جن میں متعدد طالبان کمانڈر بھی شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستانی طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے قریبی ساتھی اور عسکریت پسند کمانڈر نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ حکومت سے بات چیت کا سلسلہ چھ ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے۔