تحریک ِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کےنائب کمانڈر مولوی فقیرمحمد نےحکومت کے ساتھ امن بات چیت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس عمل میں ’مثبت پیش رفت‘ ہو رہی ہے اور فریقین کے مابین ’جلد ایک معاہدہ طے پانے والا ہے‘۔
اُنھوں نے یہ انکشاف صحافیوں کے ساتھ نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
طالبان کمانڈر کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات کامیابی سے مکمل ہوئے تو اِن کے نتیجے میں طے پانے والا امن معاہدہ باجوڑ میں نافذ العمل ہوگا، جسے بعد میں دیگر قبائلی علاقوں اور سوات میں بھی نافذ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن، مولوی فقیر نے مجوزہ امن معاہدے کی شقیں یا شرائط بتانے سے گریز کیا اور دعویٰ کیا کہ حکومت نے خیرسگالی کے جذبے کے تحت اُن کے درجنوں ساتھیوں کو بھی رہا کیا ہے، جب کہ جواب میں طالبان جنگجوؤں نے اپنے حملے روک دیے ہیں۔
طالبان اور حکومتِ پاکستان کے نمائندوں کے درمیان امن مذاکرات کی اطلاعات گذشتہ ماہ بھی سامنے آئی تھیں، لیکن اُس وقت دونوں فریقوں نے اِس بات چیت کی تردید کرتے ہوئے ایسی خبروں کو من گھڑت قرار دیا تھا۔
لیکن، ہفتے کی شام ایک نجی ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے عسکریت پسندوں کے ساتھ امن بات چیت کی اطلاعات کی تردید نہیں کی اور کہا کہ شروع دِن سے اُن کی حکومت ’مذاکرات، ڈولپمنٹ اور مزاحمت‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہے، تو وزیر اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کی پالیسی کا حصہ اور ایک جاری عمل ہے۔ تاہم، اُنھوں نے اِس بارے میں مزید کوئی تفصیلات نہیں دیں۔
پاکستانی حکام نے ماضی میں بھی طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ امن معاہدے کیے ہیں، لیکن وہ زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکے، بلکہ جنگجوؤں نے زمانہٴ امن کو اپنی صفوں کو مضبوط کرنے اور تنظیم ِ نو کے لیے استعمال کیا۔
طالبان کمانڈر مولوی فقیر کا مضبوط گڑہ باجوڑ ایجنسی رہی ہے اور پاکستانی فوج نے افغان سرحد سے جُڑے اِس قبائلی علاقے میں جب آپریشن شروع کیا تھا تو اُس وقت وہ اپنے ساتھیوں سمیت، بقول پاکستانی حکام کے، افغانستان کے مشرقی صوبے کُنڑ کی طرف فرار ہوگیا جہاں اُنھیں مبینہ طور پر صوبائی گورنر فضل اللہ کی حمایت بھی حاصل رہی۔
باور کیا جاتا ہے کہ مولوی فقیر نے خیبر پختون خواہ کی حکومت اور طالبان کے درمیان مئی 2008ء میں طے پانے والے امن معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
قبائلی ذرائع کے مطابق اکتوبر سنہ 2010 میں تحریکِ طالبان پاکستان نے باجوڑ میں مولوی فقیر کو تنظیم کی قیادت سے ہٹا کر اُس کی جگہ مولوی داد اللہ کو ٹی ٹی پی کا امیر مقر ر کیا تھا اور وہ اب بھی اِس عہدے پر برقرار ہے۔
اِن حالات کے پیشِ نظر، مولوی فقیر کے ساتھ حکومت کی بات چیت کے حتمی نتائج کے بارے میں مبصرین تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، کیونکہ گذشتہ ایک سال کے دوران طالبان اور اُس کی حامی تنظیموں کے کئی نئے دھڑے وجود میں آچکے ہیں جِں کی ایک بڑی تعداد اغوا برائے تاوان، منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر ایسے جرائم میں ملوث ہے۔