جنرل کیانی نے کہا کہ پاکستانی سرزمین پر مشترکہ آپریشن کی اطلاعات قیاس آرائیاں ہیں کیونکہ یہ عوام اور فوج دونوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔
پاکستان کی بری فوج نے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی بیرونی دباؤ پر نہیں بلکہ مقامی حالات کو پیش نظر رکھ کر سیاسی اور عسکری قیادت کی باہمی رضا مندی سے کی جائے گی۔
چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہ وضاحت امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل جیمز میٹس سے راولپنڈی میں جمعرات کو دیر گئے ہونے والی بات چیت میں کی، جس میں سلامتی سے متعلق اُمور بشمول دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں پاک افغان سرحد پر تعاون کو وسعت دینے پر تبادلہ خیال کیا۔
پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ نے نے جمعہ کو اس ملاقات کی تفصیلات جاری کی ہیں جن کے مطابق جنرل کیانی نے شمالی وزیرستان میں نیا محاذ کھولنے سے متعلق اپنے ملک کا موقف دہرایا۔
’’ہم ضرورت پڑنے پر شمالی وزیرستان میں شاید کارروائیاں کریں جن کے وقت کا تعین سیاسی اور فوجی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے گا۔ (لیکن) کارروائی ہرگز کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ نہیں ہوگی۔‘‘
جنرل کیانی نے ان قیاس آرائیوں کی بھی تردید کی کہ اُنھوں نے افغانستان میں اتحادی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن کو شمالی وزیرستان میں مشترکہ فوجی کارروائی کی یقین کرائی ہے۔
سرکاری بیان میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں دوطرفہ تعاون بشمول خفیہ معلومات کا تبادلے کا مطلب پاکستانی سر زمین پر غیر ملکی افواج کو کارروائی کی اجازت دینا ہرگز نہیں۔
’’مشترکہ کارروائی پاکستانی عوام اور افواج کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے، اور ہم نے ہمیشہ یہ حد واضح کی ہے۔‘‘
اس سے قبل اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے بھی جنرل میٹس اور پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف کی بات چیت کی تفصیلات ایک الگ بیان میں جاری کی تھیں جس کے مطابق ملاقات میں فوجی قائدین نے دوطرفہ تعاون پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے مشترکہ مقاصد کے حصول میں پیش رفت کے لیے رابطوں کے تسلسل پر اتفاق کیا۔
’’امریکی سنٹرل کمان کے چیئرمین نے زور دے کر کہا کہ سلامتی سے متعلق اُمور کے سلسلے میں پاک امریکہ شراکت داری ناصرف افغانستان میں جاری مہم بلکہ علاقائی استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔‘‘
اُدھر شمالی وزیرستان کے رہائشیوں نے ان اطلاعات کی نفی کی ہے کہ خطے میں مجوزہ آپریشن کے لیے فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے کے انتظامی مرکز میران شاہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ایک سرکردہ قبائلی رہنما ملک نصر اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے کوئی آثار نہیں۔
’’یہ بالکل افواہ ہے، وہ (فوجی دستے) اسی حال میں ہیں جیسے پہلے تھے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کی ضرورت ہی نہیں ہے (کیوں کہ وہاں) کوئی واقعہ تو ہو جس کی وجہ سے آپریشن کی ضرورت پڑے۔‘‘
امریکی حکام کا الزام ہے کہ شمالی وزریستان میں القاعدہ اور طالبان کے حقانی نیٹ ورک نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھیں ہیں، جنھیں سرحد پار اہم امریکی اور افغان اہداف پر مہلک حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہ وضاحت امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل جیمز میٹس سے راولپنڈی میں جمعرات کو دیر گئے ہونے والی بات چیت میں کی، جس میں سلامتی سے متعلق اُمور بشمول دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں پاک افغان سرحد پر تعاون کو وسعت دینے پر تبادلہ خیال کیا۔
پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ نے نے جمعہ کو اس ملاقات کی تفصیلات جاری کی ہیں جن کے مطابق جنرل کیانی نے شمالی وزیرستان میں نیا محاذ کھولنے سے متعلق اپنے ملک کا موقف دہرایا۔
’’ہم ضرورت پڑنے پر شمالی وزیرستان میں شاید کارروائیاں کریں جن کے وقت کا تعین سیاسی اور فوجی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے گا۔ (لیکن) کارروائی ہرگز کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ نہیں ہوگی۔‘‘
جنرل کیانی نے ان قیاس آرائیوں کی بھی تردید کی کہ اُنھوں نے افغانستان میں اتحادی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن کو شمالی وزیرستان میں مشترکہ فوجی کارروائی کی یقین کرائی ہے۔
سرکاری بیان میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں دوطرفہ تعاون بشمول خفیہ معلومات کا تبادلے کا مطلب پاکستانی سر زمین پر غیر ملکی افواج کو کارروائی کی اجازت دینا ہرگز نہیں۔
’’مشترکہ کارروائی پاکستانی عوام اور افواج کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے، اور ہم نے ہمیشہ یہ حد واضح کی ہے۔‘‘
اس سے قبل اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے بھی جنرل میٹس اور پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف کی بات چیت کی تفصیلات ایک الگ بیان میں جاری کی تھیں جس کے مطابق ملاقات میں فوجی قائدین نے دوطرفہ تعاون پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے مشترکہ مقاصد کے حصول میں پیش رفت کے لیے رابطوں کے تسلسل پر اتفاق کیا۔
’’امریکی سنٹرل کمان کے چیئرمین نے زور دے کر کہا کہ سلامتی سے متعلق اُمور کے سلسلے میں پاک امریکہ شراکت داری ناصرف افغانستان میں جاری مہم بلکہ علاقائی استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔‘‘
اُدھر شمالی وزیرستان کے رہائشیوں نے ان اطلاعات کی نفی کی ہے کہ خطے میں مجوزہ آپریشن کے لیے فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے کے انتظامی مرکز میران شاہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ایک سرکردہ قبائلی رہنما ملک نصر اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے کوئی آثار نہیں۔
’’یہ بالکل افواہ ہے، وہ (فوجی دستے) اسی حال میں ہیں جیسے پہلے تھے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کی ضرورت ہی نہیں ہے (کیوں کہ وہاں) کوئی واقعہ تو ہو جس کی وجہ سے آپریشن کی ضرورت پڑے۔‘‘
امریکی حکام کا الزام ہے کہ شمالی وزریستان میں القاعدہ اور طالبان کے حقانی نیٹ ورک نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھیں ہیں، جنھیں سرحد پار اہم امریکی اور افغان اہداف پر مہلک حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔