واشنگٹن میں اعلیٰ سطحی پاک امریکہ سٹرٹیجک مذاکرات کے خاتمے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کے بارے میں پاکستا نی قانون سازوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے سے سینٹ کے رکن عباس خان آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس سے قبل بھی دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات اور تعاون جاری تھا لیکن اُن کے بقول اس مرتبہ قبائلی علاقوں میں مجوزہ مخصوص صنعتی علاقوں کے قیام اوروہاں بننے والے سامان کو عالمی منڈیوں تک رسائی دینے کے حوالے سے کیے جانے وعدوں پر امریکہ عمل درآمد کو یقینی بنائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی پرتشدد کارروائیوں کے باعث تباہ حال قبائلی علاقوں میں بڑے ترقیاتی منصوبے نہ صرف اُن علاقوں میں بسنے والے عوام کی خوشحالی کا باعث بنیں گے بلکہ اس سے وہاں امن وامان کی صورت حال میں بھی بہتری آئے گی۔
حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی پلوشہ بہرام کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات ایک نازک موڑ پر ہیں ۔ اُنھوں نے کہا کہ اعلیٰ سطحی مذاکرات میں امریکہ نے جس طرح پاکستان کے خدشات کو تحمل اور سنجیدگی سے سنا وہ ایک خوش آئند اقدام ہے اور اس سے یہ تاثر بھی واضح طور پر اُبھراہے کہ امریکہ پاکستان کو ایک قریبی ساتھی ملک تصور کرتا ہے ۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے حوالے سے فوری طورپر کوئی بڑا اعلان کیا جاتا تو اس سے پاکستانی عوام میں امریکہ کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے میں مدد ملتی۔
اُدھر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پاک امریکہ سٹریٹجک ڈائیلاگ پر پارلیمان کو اعتماد میں نہ لینے کے مطالبات کا جواب دیتے ہوئے جمعہ کے روز صحافیوں کو بتایا کہ واشنگٹن میں ہونے والی بات چیت کی تفصیلات سے جوں ہی پاکستانی وفد وطن واپسی پر اُنھیں آگاہ کرے گا وہ اس پر عوام کو اعتماد میں لیں گے۔