پاک امریکہ تعلقات اور نیٹو سپلائی سے متعلق معاملات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئے۔حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے پہلی بار کھل کر واضح کر دیا کہ اگر اس معاملے پر اتفاق رائے نہ ہو سکا تو کثرت رائے سے سفارشات منظور کر لی جائیں گی اور مقامی میڈیا رپورٹس اس بات کی تصدیق کر رہی ہیں کہ صدر آصف علی زرداری کے زیر صدارت اتحادیوں کے اجلاس میں اتفاق رائے ہوگیا ہے۔
میاں رضا ربانی کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی نے ترمیم شدہ سفارشات تیار کر لی ہیں اور قومی امکان ہے کہ جمعرات کو ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ منظور کر لی جائیں گی۔ منگل کو پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد رضا ربانی نے میڈیا کو بتایا کہ بعض جماعتوں کے تحفظات پر کچھ سفارشات میں ترمیم کی گئی ہے اور کمیٹی کے اراکین اپنی جماعتوں کی قیادت سے اس حوالے سے مشاورت کے بعد جواب دیں گے۔
ترمیم شدہ سفارشات کے مطابق نیٹو سپلائی کے ذریعے اسلحہ افغانستان لے جانے پر پابندی ہو گی ، پاکستان میں غیر ملکی سیکورٹی ایجنسیوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی ، ملکی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی اور پاکستانی ہوائی اڈے کسی دوسرے ملک کے استعمال کیلئے ہر گزنہیں دیئے جائیں گے۔
منگل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیپلزپارٹی کی رکن پارلیمنٹ یاسمین رحمن نے کہا کہ نئی خارجہ پالیسی کی تشکیل کیلئے پارلیمنٹ کویہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہے۔پاکستان کسی صورت عالمی تنہائی برداشت نہیں کرسکتا۔
دوسری جانب نیٹو سپلائی اور خارجہ پالیسی پر اتفاق رائے کی کوششوں میں مصروف حکومت پاکستان کی جانب سے پہلی مرتبہ دوسرے آپشن پر بھی اظہار کیا گیا۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے واضح کیا کہ اگر قومی سلامتی کمیٹی کی سفارشات پر اتفاق رائے نہ ہوا تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ کثرت رائے سے منظورکرلی جائیں گی۔
وزیر خارجہ نے مولانا فضل الرحمن کے پارلیمانی کمیٹی سے متعلق رویہ کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی پریشر گروپ کے دباوٴ میں نہیں آئیں گے۔ پارلیمنٹ سے باہر شورمچانے والے گروپوں کے پاس عوا می مینڈیٹ نہیں۔ ایک سوال پرانھوں نے کہا کہ وہ صدر کے بھارتی دورے کی سب سے زیادہ حامی تھیں۔ پاکستان تمام ممالک سے بہترتعلقات کاخواہاں ہے۔
ادھر پاکستان میں امریکا کے سفیر کیمرون منٹر نے جے یو آئی ف کے سربراہ اور پارلیمنٹ میں دوسری بڑی اپوزیشن جماعت کے رہنما مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی جس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ امریکی سفیر نے ملاقات میں نیٹو سپلائی کی بحالی کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ڈرون حملوں سے شدت پسندی میں اضافہ ہو گا۔ ان کا کہناتھا کہ انہیں محسوس ہوا کہ دباوٴ میں رکھ کر فیصلے کئے جارہے ہیں،اسی لئے پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ کیا۔اس ملاقات کے کیا اثرات ہونگے یہ بھی جمعرات کو ہونے والے مشترکہ اجلاس میں ہی سامنے آئیں گے۔
حنا ربانی کھر اور پارلیمنٹ میں یاسمین رحمن کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اپنی اتحادی جماعتوں سے مل کر پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کثرت رائے سے منظور کر لے گی اوراس حوالے سے اتفاق رائے کیلئے ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی مشترکہ صدارت میں اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس منعقد کیا گیا۔
اجلاس میں مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین ،مشاہد حسین سید ، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی ، ایم کیو ایم کے راہنما ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری ودیگر نے شرکت کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس موقع پر اتحادی جماعتوں نے پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر تفصیلی تبادلہ اور مشاورت کی۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے واضح کیا کہ اگر قومی سلامتی کمیٹی کی سفارشات پر اتفاق رائے نہ ہوا تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ کثرت رائے سے منظورکرلی جائیں گی۔