بعض ارکان پارلیمان اور غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک نے کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں اور پاکستان کی وزیرخارجہ کے دورہ امریکہ سے بھی اس ضمن میں خاطر خواہ پیش رفت ہوگی۔
امریکی سینیٹ نے کثرت رائے سے پاکستان، لیبیا اور مصر کے لیے امداد کی کٹوتی کے ایک ترمیمی بل کو مسترد کر دیا ہے۔
ریپلیکن پارٹی کے سینیٹر رانڈ پال نے بل میں تجویز کیا تھا کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد کو اسامہ بن لادن کی شناخت میں سی آئی اے کو مدد فراہم کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کیا جائے۔ جب کہ لیبیا اور مصر کو بھی امداد اس وقت تک نا دی جائے جب تک کہ ان ملکوں میں امریکی قونصل خانے اور سفارتخانے پر حملوں میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے نہیں کر دیا جاتا۔
ڈاکٹر شکیل اس وقت پاکستان میں زیرحراست ہیں اور انھیں ایک قبائلی عدالت نے عسکریت پسندوں کی معاونت کرنے کے الزام میں تینتیس سال قید کی سزا سنائی تھی۔
امریکی سینیٹ میں یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی جب پاکستانی وزیر خارجہ حناربانی کھر اپنے پہلے سرکاری دورے پر ان دنوں امریکہ میں ہیں۔
گزشتہ برس اسامہ بن لادن کی پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ایک امریکی آپریشن میں ہلاکت اور بعد ازاں سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کے جانی نقصان پر پاکستان کی طرف سے نیٹو سپلائی کی بندش سے دونوں ملکوں کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار تھے۔
تاہم بعض ارکان پارلیمان اور غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رواں جولائی میں پاکستان کے راستے نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کے بعد سے دونوں ممالک نے کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں اور پاکستان کی وزیرخارجہ کے دورہ امریکہ سے بھی اس ضمن میں خاطر خواہ پیش رفت ہوگی۔
پاکستان کی سینیٹ کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین حاجی عدیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکی سینیٹ میں امداد کی کٹوتی کے ترمیمی بل کا مسترد کیا جانا بھی ایک اچھا پہلو ہے۔
’’جب سے نیٹو سپلائی بحال ہوئی ہے میرے خیال میں دونوں طرف سے کوشش کی جارہی ہے حالات معمول کی طرف آئیں، بہتری کی طرف آئیں، دہشت گرد ہمارے مشترکہ دشمن ہیں ان کو ملک کر ہم شکست دیں۔‘‘
پاکستان کے ایک سابق سفارتکار علی سرور نقوی کا کہنا ہے کہ دوطرفہ تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔
’’جو ہمارے اختلافات ہیں وہ ایک دم سے دور نہیں ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دورے کا سب سے بڑا فائدہ ہے وہ یہ کہ ایک دوسرے کے نظریے کو زیادہ بہتر انداز سے سمجھا جائے گا اور دونوں طرف اس سے وضاحت آئے گی۔‘‘
واشنگٹن میں جمعہ کو پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اپنی امریکی ہم منصب ہلری کلنٹن سے ملاقات کی تھی۔
جس کے بعد امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا تھا کہ انھوں نے حنا ربانی کھر سے ملاقات میں دوطرفہ امور پر تفصیلی سے بات چیت کی۔ ’’یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال پاک امریکہ تعلقات کے لیے بہت مشکل تھا اور باہمی اشتراک کو اس مقام تک لے کر جانا ہے جس کی دونوں ملک خواہش رکھتے ہیں۔‘‘
ہلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ خطے کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی مارک گراسمین بھی حال ہی میں اسلام آباد کا دورہ کر کے لوٹے ہیں اور وہ آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی منتظر ہیں۔
ریپلیکن پارٹی کے سینیٹر رانڈ پال نے بل میں تجویز کیا تھا کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد کو اسامہ بن لادن کی شناخت میں سی آئی اے کو مدد فراہم کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کیا جائے۔ جب کہ لیبیا اور مصر کو بھی امداد اس وقت تک نا دی جائے جب تک کہ ان ملکوں میں امریکی قونصل خانے اور سفارتخانے پر حملوں میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے نہیں کر دیا جاتا۔
ڈاکٹر شکیل اس وقت پاکستان میں زیرحراست ہیں اور انھیں ایک قبائلی عدالت نے عسکریت پسندوں کی معاونت کرنے کے الزام میں تینتیس سال قید کی سزا سنائی تھی۔
امریکی سینیٹ میں یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی جب پاکستانی وزیر خارجہ حناربانی کھر اپنے پہلے سرکاری دورے پر ان دنوں امریکہ میں ہیں۔
گزشتہ برس اسامہ بن لادن کی پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ایک امریکی آپریشن میں ہلاکت اور بعد ازاں سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کے جانی نقصان پر پاکستان کی طرف سے نیٹو سپلائی کی بندش سے دونوں ملکوں کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار تھے۔
تاہم بعض ارکان پارلیمان اور غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رواں جولائی میں پاکستان کے راستے نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کے بعد سے دونوں ممالک نے کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں اور پاکستان کی وزیرخارجہ کے دورہ امریکہ سے بھی اس ضمن میں خاطر خواہ پیش رفت ہوگی۔
پاکستان کی سینیٹ کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین حاجی عدیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکی سینیٹ میں امداد کی کٹوتی کے ترمیمی بل کا مسترد کیا جانا بھی ایک اچھا پہلو ہے۔
’’جب سے نیٹو سپلائی بحال ہوئی ہے میرے خیال میں دونوں طرف سے کوشش کی جارہی ہے حالات معمول کی طرف آئیں، بہتری کی طرف آئیں، دہشت گرد ہمارے مشترکہ دشمن ہیں ان کو ملک کر ہم شکست دیں۔‘‘
پاکستان کے ایک سابق سفارتکار علی سرور نقوی کا کہنا ہے کہ دوطرفہ تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔
’’جو ہمارے اختلافات ہیں وہ ایک دم سے دور نہیں ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دورے کا سب سے بڑا فائدہ ہے وہ یہ کہ ایک دوسرے کے نظریے کو زیادہ بہتر انداز سے سمجھا جائے گا اور دونوں طرف اس سے وضاحت آئے گی۔‘‘
واشنگٹن میں جمعہ کو پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اپنی امریکی ہم منصب ہلری کلنٹن سے ملاقات کی تھی۔
جس کے بعد امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا تھا کہ انھوں نے حنا ربانی کھر سے ملاقات میں دوطرفہ امور پر تفصیلی سے بات چیت کی۔ ’’یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال پاک امریکہ تعلقات کے لیے بہت مشکل تھا اور باہمی اشتراک کو اس مقام تک لے کر جانا ہے جس کی دونوں ملک خواہش رکھتے ہیں۔‘‘
ہلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ خطے کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی مارک گراسمین بھی حال ہی میں اسلام آباد کا دورہ کر کے لوٹے ہیں اور وہ آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی منتظر ہیں۔