پانچ روز قبل امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن کی جانب سے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر حقانی گروپ کی مدد سے متعلق بیان کے بعد پاکستان اور امریکا کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال پر بحث کی گونج ان دنوں پاکستان میں گھر گھر سنائی دے رہی ہے۔ اس بحث کو عام کرنے میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا سب سے بڑا ہاتھ ہے ۔
آج پاکستان کو کوئی چینل اور اخبار اس بحث سے خالی نہیں۔ کالم، رپورٹس، خبریں، تجزیئے ، تبصرے، فلمیں غرض کہ ہر جگہ یہی بحث چھڑی ہوئی ہے اور اس میں سیاست دانوں سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد حصہ لے رہے ہیں۔ اس صورتحال سے ایک جانب تو بھر پور انداز میں پاک فوج کو عوامی حمایت حاصل ہوگئی ہے تو دوسری جانب مختلف مسائل کا شکار پیپلزپارٹی پر حریفوں کی جانب سے تنقید کا سلسلہ تھم گیا ۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد نئے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں پاکستان آرمی نے جس طرح سوات میں دہشت گردوں کا صفایا کیا اورسال دو ہزار دس کے سیلاب میں امدادی کاموں میں حصہ لیا اس سے ملک میں پاکستان آرمی کو جمہوری حکومت پر فوقیت دی جانے لگی تاہم رواں سال مارچ میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور دو مئی کو اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے بعد بعض سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں کی جانب سے فوج کو نہ صرف کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ بہت سے سوالات بھی اٹھنے لگے تھے جبکہ اس واقعے سے اس سوالات پر اب دھول پڑنے لگی ہے۔
ادھرفوج کی بھر پور حمایت میں مختلف شہروں اور قصبوں میں ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے ۔کراچی کے مختلف علاقوں میں سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے نقدی اور سامان جمع کرنے کے لئے جگہ جگہ کیمپ لگے تھے اب جب سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ان کیمپوں سے امریکہ کے خلاف لاوڈ اسپیکر پر ترانے بج رہے ہیں۔شہر کی سڑکوں پر گھومتے فلوٹس پر مخالفت میں نعرے بازی بھی ہورہی ہے۔
قومی اسمبلی میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد نواز شریف اس تمام تر صورتحال میں پاک آرمی کی کارکردگی سے سب سے زیادہ ناراض تھے لیکن اب انہوں نے خود بھی اس معاملے پر چپ رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور دیگر رہنماؤں کو بھی ایسی ہی ہدایت کی ہے ۔
پاک فوج کے علاوہ حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کو بھی موجودہ صورتحال سے بھر پور فائدہ پہنچ رہا ہے ۔ اس سے قبل مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف ، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ، جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن جس طرح حکومت کے خلاف بیان بازی کر رہے تھے اس میں بھی ٹھہراؤ آ گیاہے ۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے کا دباؤ بھی کسی حد تک کم ہو گیا ہے ، اندرون سندھ میں سیلاب متاثرین کی میڈیا کے ذریعے آنے والی فریادیں بھی اب کم سنائی دے رہی ہیں ، بد عنوانی کے الزامات سے بھی کچھ وقت کیلئے حکومت کی جان چھوٹ گئی ہے اور پیپلزپارٹی کو آل پارٹیز کانفرنس میں بہت سے منقطع رابطوں کو بحال کرنے کا بھی موقع مل گیا ہے ۔ امید کی جا رہی ہے کہ پیپلزپارٹی بغیر کسی رکاوٹ کے آسانی سے اپنی مدت پوری کر لے گی ۔