پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اکثر اتار چڑھاؤ رہا، تاہم سال 2015ء میں دونوں ملکوں کے درمیان کسی معاملے پر کوئی بڑا اختلاف دیکھنے میں نہیں آیا۔
بلکہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری دیکھی گئی، جس کی بظاہر دو بڑی وجوہات میں سے ایک تو ڈرون حملوں میں واضح کمی تھی اور دوسری پاکستان کی طرف سے امریکہ کو کروائی گئی یہ یقین دہانی تھی کہ حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
سال 2015ء میں دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے بھی تعلقات میں بہتری کے لیے اہم رہے۔ سال کے اوائل میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری پاکستان آئے جب کہ سال کے اواخر میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بعد فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے واشنگٹن کے دورے کیے۔
جنوری 2015ء میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری جب اسلام آباد آئے تو اُن کی پاکستانی قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں میں ایک اہم موضوع دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی تھی۔
’’یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کئی معاملات پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان عدم اتفاق ہے۔ لیکن ہمارے تعلقات پختہ ہیں اور اس افہام و تفہیم کے ساتھ ہم مل کر کام کر سکتے ہیں کہ ہمارے مشترکہ طور پر بڑے اہداف اور مفادات ہیں۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ کہنا تھا کہ یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے پرعزم ہے۔
’’دہشت گرد گروپ (جن میں پاکستانی اور افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور دیگر ایسے گروہ شامل ہیں)، وہ نا صرف پاکستان اور اس کے پڑوسی ممالک بلکہ امریکہ اور دنیا کے لیے مسلسل ایک خطرہ ہیں۔‘‘
پاکستان کی طرف سے امریکہ کو یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ حقانی نیٹ ورک سمیت تمام ہی دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ہمراہ رواں سال کے اوائل میں اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل پر پاکستان میں اتفاق رائے کے بعد اب دہشت گردی میں ملوث عناصر میں کوئی تفریق نہیں ہے۔
’’جہاں تک حقانی نیٹ ورک کا تعلق ہے، شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد اس گروپ کا ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب مسعود خان کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے باہمی اعتماد سازی کے لیے اہم رہے۔
’’دو ملاقاتوں کا میں ذکر کروں گا، میں سمجھتا ہوں کہ اس سال کے شروع میں سرتاج عزیز اور امریکہ کے وزیر خارجہ کی اسلام آباد میں جو ملاقات ہوئی تھی وہ بہت اہم تھی۔۔۔۔۔۔ اسی طریقے سے اکتوبر میں نواز شریف اور صدر براک اوباما کی واشنگٹن میں ملاقات بہت اہم تھی۔۔۔۔۔ بالکل ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد موجود ہے اور بڑھ رہا ہے۔‘‘
سرتاج عزیز نے سال 2015ء میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مثبت سمت کی جانب گامزن ہیں۔
’’تعلقات بہتری کی جانب بڑھے ہیں، کچھ ہمارے بھی تحفظات ہیں اور کچھ اُن (امریکہ) کے بھی تحفظات ہیں اُن پر بات چیت ہوتی رہتی ہے کوئی ایسا بڑا مسئلہ یا بحران نہیں ہے۔‘‘
دفاعی اُمور کے ماہر لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آئی۔
’’گو کہ امریکی کانگریس میں بعض اوقات اس پر شک و شبہے کا اظہار ہوتا ہے لیکن اس کے باجود جو بھی افغانستان میں امریکی سینیئر آفیسر رہے ہیں جو نیٹو کے کمانڈر رہے ہیں اُنھوں نے اعتراف کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور دیگر (دہشت گرد گروپوں) کو بہت نقصان پہنچا ہے کیوں کہ اُن کا ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے۔‘‘
سال 2015ء میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے امریکہ کے دوروں کے موقع پر نا صرف دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا بلکہ افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے بھی مل کر کوششیں کرنے کا عزم کیا گیا۔
2015ء کے اواخر میں اسلام آباد میں افغانستان سے متعلق ہونے والی ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ میں امریکہ کے نائب وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بھی شرکت کی تھی۔
’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ میں شریک افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل میں پاکستان اور دیگر اتحادی ممالک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
’’اس معاملے میں ہمارے اتحادی ممالک، امریکہ، چین اور بلاشبہ پاکستان نے اس آمادگی کا اظہار کیا ہے کہ وہ امن و مصالحت کے عمل کے لیے افغانستان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ ہمیں بہت اُمید ہے کہ یہ کوشش نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔‘‘
مسعود خان کہتے ہیں کہ اب امریکہ کی بھی خواہش ہے کہ افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے امن کی راہ تلاش کی جائے۔
’’ان کو اکٹھا کرنے میں پاکستان اور امریکہ نے مشترکہ کوششیں کی ہیں اور مشکل سے مشکل حالات میں دونوں ممالک پراُمید رہے ہیں کہ مذاکرات کا عمل بحال ہو جائے گا۔ ابھی جو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ہوئی تھی اُس کے بعد یہ امکانات روشن ہو گئے ہیں۔‘‘
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ کے موقع پر اُن کی افغان صدر اشرف غنی سے اہم بات چیت ہوئی۔ پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اُن کا ملک طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کا خواہاں ہے۔