پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ایران کے فضائی حملے اور پھر جمعرات کے روز ایران کے صوبے سیستان میں پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد، پاکستان اور ایران کے امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار اس بات پر حیران ہیں کہ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا جبکہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہو رہے تھے۔
دونوں ملکوں کی بحری فوجیں مشترکہ مشقیں کر رہی تھیں۔ پاکستانی وفد چاہ بہار میں موجود تھا۔ اور دونوں ملکوں کے درمیان مختلف سطح پر تجارت کو فروغ دینے کے لئے سنجیدہ مذاکرات ہو رہے تھے تو پھر یہ اچانک کیا ہوا؟
ڈاکٹر فاروق حسنات:
مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر ڈاکٹر فاروق حسنات کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بظاہر دونوں ملکوں کے درمیان مفادات کا کوئی تصادم بھی نظر نہیں آتا ہے۔ بلکہ مفادات مشترکہ نظر آتے ہیں۔ پھر اچانک ایران کی جانب سے حملہ اور یہ کہنا کہ اس نے وہاں پناہ لئے ہوئے ایرانی علیحدگی پسندوں کو ہدف بنایا ہے۔ کچھ زیادہ قابل فہم نہیں ہے۔
SEE ALSO: امریکی انتظامیہ کی پاکستان پر ایرانی حملےکی مذمتایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انکا کہنا تھاکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایران کے پاسداران انقلاب اس حملے کےپیچھےہوں۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ بیشتر صورتوں میں خاص طور پر دفاع کے معاملات میں وہ اپنے طور پر کارروائیاں کرتے ہیں۔ اور اگر حقیقت میں یہ ہی بات ہے تو خود ایران کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو اس بارے میں سوچنا چاہئیے۔
ڈاکٹر فاروق حسنات کا کہنا تھا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ جوابی کارروائی اسکی مجبوری تھی۔ ورنہ اسے پاکستان کی کمزوری سمجھا جاتا اور خطے کے دوسرے ایکٹر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے۔ بلکہ آنہوں نے کہا کہ بعض حلقوں کا تو خیال ہے کہ پاکستان کو اس سے بھی زیادہ سخت انداز میں جواب دینا چاہئیے تھا۔
تاہم ان کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہ اس معاملے کو زیادہ نہ بڑھنے دیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں چین جس کے دونوں ملکوں میں مفادات ہیں پوری کوشش کرے گا کہ بات کو بڑھنے نہ دیا جائے۔
SEE ALSO: ایرانی،پاکستانی ہم منصب کہتے ہیں وہ کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے، ترک وزیر خارجہبریگیڈیر سعد نذیر
بریگیڈیر سعد نذیر پاکستان کے ایک ممتاز دفاعی تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بلوچ شورش کا مسئلہ نظر آتا ہے جو بنیادی طور پر پاکستان اور ایران دونوں ہی کے لئے عرصے سے پریشانی کا سبب بنتا آرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کافی عرصے قبل دونوں ملک اس بات پر متفق ہو گئے تھے کہ اس بارے میں ایک دوسرے کو معلومات فراہم کریں گے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک جانب یا پھر دونوں ہی جانب اس سلسلے میں کچھ غفلت کا مظاہرہ ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی۔
SEE ALSO: وہ 'عسکریت پسند' تنظیمیں جو پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کا باعث بنیںبریگیڈیر سعد نذیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ صورت حال دونوں ملکوں کے مشترکہ دشمنوں کے لئے کافی بہتر ہوگی اور اگر اسے فوری طور پر قابو میں نہ کیا گیا تو یہ دشمن اس صورت حال سے فائدہ اٹھائیں گے
بریگیڈیر سعد نذیر کا خیال ہے کہ اس کا ایک فوری نقصان تو یہ ہو گا کہ عالمی میڈیا کی توجہ جو اسوقت پوری طرح غزہ میں ہو نے والی جنگ پر ہے وہ بٹ جائے گی۔ اور اس جنگ اور اس کے نقصانات کی پوری کوریج نہیں ہو سکے گی۔
بریگیڈیر سعد نذیر بھی اس حوالے سے چین کے رول کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے مفادات کے تحت بھی چین یہ کبھی گوارا نہیں کرے گا کہ اسکے دو دوستوں یا اتحادیوں کے درمیاں کشیدگی بڑھے۔
SEE ALSO: پنجگور میں ایرانی حملہ؛ مقامی آبادی میں خوف و ہراس، تاجر بھی پریشانبیشتر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یہ خیال درست نہیں ہے کہ جو جنگ غزہ میں ہورہی ہے یا لبنان اور شام میں اسرائیل کی جانب سے ان کے بقول جو جوابی کارروائیاں ہو رہی ہیں، یا یمن میں حوثیوں کےخلاف جو کار روائیاں کی جارہی ہیں، پاکستان اور ایران کا جھگڑا اسی کی توسیع ہے۔ سعد نذیر کہتے ہیں کہ یہ بالکل الگ معاملہ ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ بات مشترک ہے کہ دونوں ہی اسرائیل کے مخالف اور فلسطینیوں کے حامی ہیں۔
ڈاکٹر زبیر اقبال
ڈاکٹر زبیر اقبال واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو خاص طور سے مشرق وسطیٰ کے ممالک خود کو مضبوط پوزیشن میں ظاہر کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور ایران ان ممالک کی فہرست میں سب سے آگے ہے۔
بقول ان کےعراق کے کرد علاقے پر اسکے حملے ، اسکی پراکسیز کی کاروائیاں سب اس بات کا اظہار ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مضبوط پوزیشن میں ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا اس کے باوجود کہ پاکستان اور ایران کے درمیاں بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائی کے بارے میں اتفاق رائے تھا،اچانک پاکستانی صوبے بلوچستان پر اسکا حملہ اسی خواہش کا اظہار تھا۔ لیکن اس نے بھونڈے طریقے سے یہ کام کیا۔ اور یہ غلط اندازہ لگایا کہ اسکا جواب نہیں دیا جائے گا۔
SEE ALSO: پاکستان ایران کشیدگی پر عالمی ردِعملوہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی اس جوابی کارروائی کے بعد اگر ایران کی جانب سے مزید کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو حالات بہتری کی جانب جائیں گے ورنہ تو پھر کوئی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ اور انکا بھی یہ ہی خیال ہے کہ اس قسم کی کارروائیاں پاسداران انقلاب سویلین حکومت سے مشورے کے بغیر ہی کر ڈالتے ہیں۔ اور وہاں کی حکومت کا ان پر بظاہر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔
اس معاملے میں چین کی ثالثی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئےڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ چین اس معاملے میں بہت ہی محدود کردار ادا کر سکتا ہے کیونک وہ ایران سے تیل لیتا ہے جو اسکی ضرورت ہے اسلئے وہ ایران کو اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش پاکستان کے ایک صحافی اور ممتاز تجزیہ کار ہیں۔ اس صورت حال کے بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بات ابھی تک بھی ایک معمہ ہے کے جب تعلقات ٹھیک تھے بلکہ مزید بہتری کی جانب جارہے تھے تو ایران کو اچانک اس حملے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
SEE ALSO: پاکستان ایران کے سرحد پار اہداف پر حملے، عالمی اخبار کیا کہتے ہیں؟پاکستان کے رد عمل اور جوابی کارروائی کے بارے میں ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ پہلے بھی ایرانی سیکیورٹی فورسز ایسی زمینی کارروائیاں کر چکی ہیں جنہیں پاکستان نے نظر انداز کر دیا۔ لیکن فضائی حملے کو جواب کے بغیر پاکستان جانے نہیں دے سکتا تھا۔ کیونکہ اس سے اسی قسم کی کارروائی کے لئے بھارت کی حوصلہ افزائی ہو سکتی تھی۔
اس ضمن میں آنہوں نے پلوامہ کا حوالہ بھی دیا۔ لیکن آنہوں نے کہا کہ پاکستان نے صرف خطے کے دوسرے ایکٹروں کی حوصلہ شکنی کے لئے یہ کارروائی کی ورنہ تو اس نے آپریشن کا نام تک فارسی میں رکھا۔
پاکستان کی اندرونی سیاسی صورت حال اور آٹھ فروری کے اعلان کردہ عام انتخابات کے بارے میں ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا خیال ہے کہ اگر یہ تنازعہ وسیع نہیں ہوا اور یہیں پر رک گیا تو انتخابات وقت پر نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ہے۔
تاہم بعض دوسرے تجزیہ کار اس خیال سے متفق نہیں ہیں اور انکا خیال ہے کہ انتخابات کے التواء کے لئے یہ صورت حال ایک وجہ بن سکتی ہے۔