پاکستان اور ایران کے ایک دوسرے پر فضائی حملوں کے بعد جہاں دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوئے ہیں تو وہیں سرحد کے اطراف عسکریت پسند تنظیمیں بھی موضوعِ بحث ہیں۔
منگل کی شب پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع پنجگور کے گاؤں سبز کوہ میں ایران کی جانب سے مقامی آبادی پر میزائل حملہ کیا گیا۔
ایران کے عسکری اداروں سے منسلک خبر رساں ایجنسی 'تسنیم' کے مطابق منگل کو ایرانی سیکیورٹی فورسز نے ’’میزائلوں اور ڈرونز‘‘ کا استعمال کر کے سبز کوہ میں ایرانی شدت پسند تنظیم 'جیش العدل' کے ایک ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنا کر تباہ کیا۔
پنجگور کے ایک ضلعی افسر کے مطابق سرحد کے قریب واقع اس گاؤں پر ایرانی فضائی حملے سے ایک ہی خاندان کے دو بچے ہلاک اور تین دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں۔
پاکستان نے اپنی فضائی حدود کی بلااشتعال خلاف ورزی اور پاکستانی حدود میں حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ردِعمل کے طور پر اپنے سفیر کو تہران سے واپس بلا لیا جب کہ ایران کے پاکستان میں تعینات سفیر جو اس وقت ایران ہی میں ہیں، ان کو پاکستان نہ آنے کا کہہ دیا ہے۔
جمعرات کی صبح پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے علی الصبح ایران کے اندر کارروائی کرتے ہوئے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نامی کالعدم پاکستانی شدت پسند تنظیموں کو نشانہ بنایا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اس کارروائی میں خودکش ڈرونز، راکٹ، میزائل اور گولہ بارود استعمال کیے گئے جب کہ سویلین آباد کو نقصان سے بچانے کے لیے انتہائی احتیاط برتی گئی۔
حالات خراب کیوں ہوئے؟
ایران اور پاکستان دونوں کی جانب سے ایک دوسرے کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فضائی حملوں کے لیے جواز بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سرحدی صوبے میں دونوں ممالک کی کالعدم شدت پسند تنظیمیں پناہ لیے ہوئے ہے جو وقتاً فوقتاً سرحد پار کر کے سیکیورٹی فورسز اور حکومتی مفادات کو نشانہ بناتی ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان 904 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ سرحد کے ایک جانب ایران کا سیستان بلوچستان صوبہ واقع ہے جب کہ دوسری جانب پاکستان کا صوبہ بلوچستان ہے۔ دونوں صوبوں میں بلوچ قبائل اکثریت میں آباد ہے۔ دونوں صوبوں کے ہزاروں خاندان پاک ایران سرحد کی وجہ سے تقسیم ہیں۔ سرحد کے دونوں اطراف کے باسیوں کے درمیان روزانہ اشیا کا تبادلہ معمول کی بات ہے۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ، تربت اور گودار شامل ہیں۔ یہ اضلاع ایران کی اشیا کی ایک بڑی مارکیٹ ہیں۔ ان علاقوں میں اشیائے خورونوش سمیت تیل اور موٹر سائیکلیں بھی ایرانی استعمال ہوتی ہیں جب کہ پاکستان اور ایران کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ان علاقوں میں ایران بجلی فراہم کرتا ہے۔
ایران نے حملہ کیوں کیا؟
ایران کا کہنا ہے کہ انہوں نے 'جیش العدل' نامی ایرانی شدت پسند گروہ کے ٹھکانوں پرحملہ ایران خصوصاً اس کے سرحدی صوبے سیستان بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کے بڑھتے ہوئے حملوں کے تناظر میں کیا ہے۔
ڈیووس میں جاری ورلڈ اکنامک فورم میں شریک ایران کے وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے بدھ کو میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں بلوچستان میں ایرانی حملے کے حوالے سے کہا ہے کہ ’ہم نے نام نہاد جیش العدل گروہ کو نشانہ بنایا جو کہ ایک ایرانی ’دہشت گرد گروہ‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں کسی بھی پاکستانی شہری کو ڈرون اور میزائل سے نشانہ نہیں بنایا گیا۔‘
'جیش العدل' نے بھی پنجگور میں ایرانی حملے میں اپنے دو اعزازی اراکین کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
سیکیورٹی ماہرین اور سفارت کار پنجگور میں ایرانی میزایل حملوں کو تین جنوری کو ایرانی شہر کرمان میں سابق ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کی تقریب میں دو خود کش دھماکوں کے بعد ایرانی حکومت کی کارروائیوں کا ایک حصہ قرار دے رہے ہیں۔
عالمی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ یا داعش کی مقامی شاخ ’داعش خراساں‘ کی جانب سے ان خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی جن میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ جنوری 2020 میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں امریکی افواج کے فضائی حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ان دو بم دھماکوں کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
مشرقِ وسطیٰ خصوصاً ایران کے معاملات کا مطالعہ کرنے والے اسلام آباد میں تعینات ایک مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ ’’پنجگور حملے سے ایک دن قبل ایرانی سیکیورٹی فورسز نے عراق اور شام میں بھی بمباری کی تھی جہاں ان کا کہنا تھا کہ ان کا نشانہ داعش کے ٹھکانے تھے۔‘‘
ان کے بقول ’’یہ سارے حملے ایرانی حکومت کی اپنے اندرونی سیکیورٹی معاملات کو بگڑنے سے روکنے کی کوششوں کاحصہ ہیں۔‘‘
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’پنجگور حملے سے یوں لگ رہا ہے کہ ایرانی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ جیش العدل نے ہی کرمان خودکش حملوں میں استعمال ہونے والے داعش خراساں کے دو تاجک خودکش حملہ آوروں کو ایران میں داخل ہونے کی مدد کی تھی۔‘‘
جیش العدل کیا ہے؟
جیش العدل ایران کے سرحدی صوبے سیستان بلوچستان صوبے میں فعال ایک سنی بلوچ شدت پسند تنظیم ہے جس کے بیشتر اراکین ماضی میں 'جند اللہ' نامی گروہ سے وابستہ رہے ہیں۔
سن 2010 میں جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کی ایرانی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری اور پھانسی کے دو سال بعد 'جیش العدل' کا نام 2012 میں اس وقت سننے میں آیا جب گروہ نے پاسداران انقلاب اسلامی نامی ایرانی کے خصوصی فوجی فورس کے 10 اہلکاروں کیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک یہ تنظیم درجنوں مہلک حملوں میں سینکڑوں ایرانی اہلکاروں کو نشانہ بنا چکی ہے۔
امریکہ کے ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل انٹیلی جینس کے مطابق جنداللہ ہی نے 2012 میں اپنا نام تبدیل کر کے جیش العدل رکھا ہے جب کہ یہ تنظیم کبھی کبھار ’ پیپلز ریزسٹنس آف ایران‘ کا نام بھی استعمال کرتی ہے۔
ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل انٹیلی جینس کا یہ کہنا ہے کہ جیش العدل ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں بھی فعال ہے۔
یہ گروہ بھی جنداللہ کی طرح ایران کی سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے قتل اور ایرانی سرحدی محافظوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کے اغوا میں شامل رہی ہے۔
دسمبر میں صوبہ سیستان بلوچستان کے علاقے راسک میں ایک پولیس اسٹیشن پر رات گئے کیے جانے والے حملے میں کم از کم 11 ایرانی پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس وقت ایرانی وزیرِ داخلہ احمد واحدی نے جائے وقوعہ کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرحدوں میں اڈے قائم کرنے سے روکے۔
'جیش العدل' اور دیگر سنی شدت پسند تنظیمیں جیسے 'مزاران گمنام بلوچستان' یہ الزام لگاتی ہیں کہ تہران کی حکومت بلوچوں کو فرقے اور نسل کی بنیاد پر منظم طریقے سے استحصال کا نشانہ بناتی ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کی طرح ایران کے بلوچوں کی غالب اکثریت سُنی مکتبِ فکر سے ہے۔
ایرانی حکومت بار بار پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالتی رہتی ہے کہ وہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان، خصوصا مکران ریجن میں جیش العدل جیسی تنظیموں کے ٹھکانے ختم کریں۔
خیال رہے کہ ایران اور امریکہ نے جیش العدل کو کالعدم تنظیم قرار دیا ہے۔ البتہ جیش العدل پاکستانی حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی درجنوں تنظیموں میں شامل نہیں ہے۔
جیش العدل کے ایک اہم رہنما اور ایرانی حکومت کو مطلوب ملا عمر بلوچ اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ نومبر 2020 میں بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ایک کارروائی میں ہلاک ہوئے۔
'ایرانی بلوچستان میں شورش کافی پرانی ہے'
جیش العدل اور جند اللہ سے قبل بھی ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں بھی سیاسی اور مسلح تنظیمیں ایرانی حکومت کی مرکزیت کے خلاف لڑتی چلی آ رہی ہے۔
ایران میں 1979 میں اسلامی انقلاب سے قبل بلوچستان لبریشن فرنٹ نامی ایک تنظیم ایران کی بادشاہت کے خلاف سرگرم تھی جو بعد میں ختم ہو گئی۔ البتہ جب 1979 میں ایران میں شیعہ انقلاب برپا ہوا تو ملک میں موجود مختلف غیر فارسی قومیتوں خصوصاً بلوچوں اور ترکوں میں قوم پرست رحجانات رکھنے والی تحریکیں بھی اپنے زبان اور ثقافت کی ترویج اورخودمختاری کے مطالبات کے ساتھ فعال ہوئیں۔
مصنف تاج محمد بریسیگ اپنی کتاب 'بلوچ نیشنلزم اٹس اوریجن اینڈ ڈویلپمنٹ' میں لکھتے ہیں کہ ’’انقلاب کے ساتھ ہی ایران کے بلوچستان میں حکومتی عمل داری ختم ہو کر رہ گئی تھی اور اس وقت کی بزرگان مہدی کی صوبائی حکومت نے تہران سے مطالبہ کیا تھا کہ بلوچستان میں بلوچوں کو کلیدی عہدوں پر فائز کیا جائے۔
یوں ایک ریاضی کے استاد اور ایک بلوچ دانش ور دانش نوری کو سیستان بلوچستان کا گورنر جنرل نامزد کیا گیا 1928 میں بلوچستان کے ایران میں ضم ہونے کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا۔
لیکن چھ ماہ کے اندر ہی تہران حکومت نے انہیں اور دیگر بلوچوں کو مرکزی سرکاری عہدوں سے ہٹا دیا جس سے صوبے کی بلوچ کمیونٹی میں احساسِ محرومی مزید پھیلا اور یوں سازمان ڈیمو کریٹک مردم بلوچستان (سازمان مردم )، بلوچستان راجی زرومبش (رزومبش) اور حزبِ اتحاد المسلمین نامی قوم پرست سیاسی تنظیموں نے سیستان بلوچستان میں کھل کر سیاسی سرگرمیاں شروع کر دیں۔
تاج محمد بریسیگ کے مطابق 1981 میں ایرانی حکومت نے بلوچ سیاسی گروہوں کی سرگرمیوں پر پاپندی عائد کی اور سازمان مردم کو کالعدم تنظیم قرار دیا جب کہ بڑی تعداد میں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جس کی وجہ سے سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے سرحد پار کر کے پاکستان اور افغانستان کے بلوچ علاقوں میں پناہ لی۔
کتاب میں 'دی اکنامسٹ' کی فرروی 1982 کی ایک رپورٹ کاحوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’’ اس وقت بلوچ سیاسی تحریک سے وابستہ 3000 کے لگ بھگ افراد ایران سے پاکستان پہنچے تھے جب کہ صوبے کے دارالحکومت زاہدان کی جیلوں میں 4000 افراد قید تھے۔‘‘
تاج محمد بریسیگ کے مطابق ’’افغانستان میں اس وقت کے بائیں بازو کی تنظیموں نے ایرانی بلوچوں کو خوش آمدید کہا اور انہیں افغانستان کی سرزمین سے ہی اپنی تحریکیں چلانے کا موقع دیا۔"
ان کا کہنا تھا کہ 1980 کے اوائل ہی میں ایرانی حکومت نے بلوچ تنظیموں کو کمزور کر دیا تھا مگر ستمبر 1980 میں شروع ہونے والی ایران عراق کے جنگ کے دوران عراقی حکومت نے بلوچ تنظیموں کو ایرانی حکمرانوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔
اُں کے بقول روایتی قبائلی سرداروں کے ذریعے بڑی سطح پر جنگجوؤں کی بھرتیاں کی گئیں جن میں ’وحدتِ بلوچ‘ اور ’جنبشِ مجاہدین بلوچ‘ نامی تنظیمیں قابلِ ذکر ہے۔
کتاب میں لکھا گیا ہے کہ وحدتِ بلوچ‘ نے 1984 میں ایرانی حکومت کے خلاف مسلح سرگرمیاں تیز کر دیں تھیں جس کے بعد ایرانی حکومت نے عراق جنگ سے سپاہِ پاسداران انقلاب اسلامی نامی ایرانی فوج کے خصوصی ادارے کے فوجیوں کو عراق جنگ سے ہٹا کر سیستان بلوچستان بھیج دیا۔ 1985 میں وحدتِ بلوچ کے رہنما میر مولا داد کی ہلاکت کے بعد یہ تنظیم ختم ہو گئی۔
پاکستان نے حملہ کیوں کیا؟
پاکستانی حکومت نے بھی جمعرات کو کیے گئے حملے کے لیے جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایرانی حکومت سے مطالبہ کرتی رہی ہے کہ وہ پاکستانی کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں خصوصاً بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی کے ایرانی سرزمین پر ٹھکانے ختم کریں۔
کوئٹہ میں مقیم ایک سیکیورٹی اہلکار کے مطابق چینی تنصیبات اور سرکاری تنصیبات پر حملوں میں ملوث بلوچستان کی مسلح علیحدگی پسند تنظیمیں ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بی ایل اے کے ایک دھڑے کے سربراہ بشیر زیب، بی ایل ایف کے سربراہ اللہ نذر بلوچ اور ان کے کمانڈرز ایران میں رہتے ہیں جب کہ حال ہی میں گرفتار ہونے والے بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے سربراہ گلزار امام کو بھی ایران سے ترکیہ بلا کر گرفتار کیا گیا تھا۔
بلوچ عسکریت پسندی کے معاملات سے باخبر ایک صحافی نے بتایا کہ ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں گزشتہ سال چلنے والی بلوچ عوام کی تحریک کے حوالے سے ایرانی حکومت کے خلاف بی ایل ایف اور بی ایل اے نے کوئی بیان تک جاری نہیں کیا۔ البتہ یورپ میں مقیم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے رہنماؤں جیسے حربیار مری کی فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے مسلسل ایران کے خلاف بیانات آتے رہتے ہیں۔
پنجگور سے ایک سنی مذہبی جماعت کے رہنما نے بتایا کہ مکران ریجن کے بلوچوں کی سرحد پار بلوچوں سے رشتہ داریاں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دونوں حکومتوں کے خلاف مزاحمت کرنے والی ایرانی سنی بلوچ تنظیمیں پاکستانی بلوچستان کو ایک محفوظ جگہ سمجھتی ہے بلکہ انہیں مقامی آبادی کی جانب سے حمایت بھی حاصل ہے.
مڈ اسٹون سینٹر فار انٹرنیشنل افیئرز نامی برطانوی تھنک ٹینک کو 2022 دیے گئے انٹرویو میں جیش العدل کے ترجمان حسین بلوچ نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کے عسکریت پسند گروہوں کے شدت پسندوں کو ایرانی حکومت خصوصاً سپاہِ پاسداران انقلاب اسلامی ایرانی سرزمین پر اڈے مہیا کر کے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
ان کے بقول ایرانی حکومت بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور بلوچستان ری پبلکن آرمی (بی آر اے) کو ایرانی سنی بلوچ گروپوں کے رہنماؤں اور اراکین کو قتل کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کے مطابق ایران کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں فائرنگ اور شیلنگ اب معمول بن رہی ہے۔ البتہ ایران کی جانب سے میزایل اور ڈرون حملوں کا استعمال تشویش ناک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں کہ ایران کے بارڈر فورس کے اہلکار مبینہ عسکریت پسندوں کا پیچھا کرتے ہوئے پاکستانی حدود میں داخل ہو گئے ہوں۔ لیکن وہ زیادہ اندر نہیں آتے تھے اور فوراً واپس چلے جاتے تھے۔
پنجگور کے ایک رہائشی نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ 2013 میں ایرانی سیکیورٹی اہلکاروں نے پنجگور کے علاقے وشبوت میں داخل ہو کر جیش العدل کے رہنما حاجی شاہ میر کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔
اس سے قبل پاکستان سیکیورٹی فورسز نے 2017 میں اپنی فضائی حدود میں داخل ہونے والا ایک ایرانی ڈرون بھی مار گرایا تھا۔
فورم