وزیراعظم عمران خان نے بڑے صنعت کاروں کو گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس(جی آئی ڈی سی) کی مد میں 208 ارب معاف کرنے کا آرڈیننس واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اٹارنی جنرل کو معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے حالیہ تنازعے کے باعث شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے آرڈیننس واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ چند روز سے حکومت کی جانب سے 208 ارب روپے کے قرضے معاف کیے جانے کے معاملے پر سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں بحث جاری تھی۔ حکومت پر یہ الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ اس نے اپنے من پسند صنعت کاروں کو نوازنے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔
صدر عارف علوی کی طرف سے جاری کردہ آرڈیننس کے تحت گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس کی مد میں بڑے صنعت کاروں کے ذمے واجب الادا 416 ارب کی رقم کا نصف حصہ معاف کر دیا گیا تھا۔
جی آئی ڈی سی ہے کیا؟
اس معاملے کا آغاز سال 2011 میں اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں ہوا جس میں گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس کا آغاز کیا گیا اور بڑے انڈسٹریل یونٹس، گیس کمپنیوں، آئی پی پیز سے یہ اضافی ٹیکس وصول کیا جانے لگا۔ اس ٹیکس کا مقصد اس وقت تاپی گیس پائپ لائن اور پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر تھی جو ایران پر عالمی پابندیوں اور پاکستان میں سیاسی وجوہات کے باعث اب تک مکمل نہیں ہوسکی۔
اس کے علاوہ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ گیس کی باآسانی فراہمی کے لیے انفراسٹرکچر تعمیر کیا جانا تھا۔ لیکن، اس پر کوئی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ مختلف صنعتی اداروں بشمول حکومتی سوئی سدرن اور ناردرن کمپنیوں، او جی ڈی سی ایل، فرٹیلائزرز، ٹیکسٹائل، آئی پی پیز، کیپٹو پاور پروڈیوسرز اور جینکوز پر یہ سیس یکساں شرح سے لاگو کیا گیا تھا۔ ان تمام صنعتوں نے یہ ٹیکس عوام سے وصول کرنا شروع کیا اور آج تک وصول کر رہے ہیں۔
اس سیس کے خلاف سال 2014 میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا جس میں عدالت نے اس کو پارلیمنٹ سے پاس نہ کیے جانے پر وصول کرنے سے روک دیا۔ بعد ازاں، سپریم کورٹ میں اپیل مسترد ہونے کے بعد مسلم لیگ نون کی حکومت نے 2015 میں جی آئی ڈی سی ایکٹ کا نفاذ کیا جس میں قانونی سقم بھی دور کر دیے گئے اور سیس کی شرح میں بھی اضافہ کر دیا گیا تھا۔
عالمی حالات کے پیش نظر دونوں پائپ لائن منصوبوں پر تقریباً کام روک دیا گیا۔ لہذا اس وقت کی مسلم لیگ حکومت نے وصول رقم کو قومی خزانے میں جمع کروا کر وفاقی بجٹ میں استعمال کر لیا۔ تاہم، اس ایکٹ کے خلاف بیشتر فریقین عدالتوں میں گئے اور سٹے حاصل کرکے بیٹھ گئے۔ لیکن، اس دوران عوام سے یہ سیس جمع کرنےکا سلسلہ بدستور جاری رہا اور آج بھی جاری ہے۔ اس سیس کی مد میں ایک کسان کو فرٹیلائزر کمپنی کو چار سو روپے سے زائد آج بھی ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ لیکن وہ حکومتی خزانے یا گیس کے شعبے کی ترقی کے لیے نہیں بلکہ ان صنعتکاروں کے پاس جمع ہو رہے ہیں۔
حکومت نے مسئلہ کا حل کیسے نکالا؟
اس معاملے کے حل کے لیے موجودہ حکومت کے آغاز سے ہی کئی مرتبہ بات کی گئی اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی اس معاملہ کو حل کرنے کے حوالے سے کئی مرتبہ زور دیا۔
اس سیس (محصول) کی مد میں اب تک کتنی رقم جمع ہوئی، اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے رکن علی پرویز کے قومی اسمبلی میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پٹرولیم ڈویژن نے جو تفصیلات جمع کرائیں ان کے مطابق 2012ء تک یہ رقم701ارب 50کروڑ تک جا پہنچی تھی۔ تاہم، دسمبر2018 کے اختتام تک صرف 285 ارب ادا کئے گئے۔ باقی رقم 416 روپے تھی، حکومت نے اس معاملہ پر بڑے صنعت کاروں جن کے ذمہ یہ خطیر رقم واجب الادا تھی ان سے بات چیت کی اور اس معاملہ کو نمٹانے کا کہا جس پر ففٹی ففٹی پر بات طے ہوگئی اور صدر عارف علوی کی طرف سے ایک آرڈیننس کے ذریعے ان کمپنیوں کے ذمہ 208 ارب روپے معاف کرکے باقی رقم وصول کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ یہ اعداد و شمار دسمبر 2018 تک کے ہیں۔ اور اس کے بعد کتنی رقم جمع ہوئی وہ اب تک سامنے نہیں آئی۔ ان کمپنیوں کے پاس موجود اس رقم پر جو مارک اپ عائد کیا جائے تو یہ رقم 300 ارب تک جا پہنچتی ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو کمپنیاں اپنے خریداروں سے وصول کرچکی ہیں۔ لیکن، حکومت کو دینے سے انکاری تھیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ رقم صارفین کو بھی واپس کی جائے گی؟
کس کس نے فائدہ اٹھایا؟
اس رقم کی معافی سے کئی کمپنیاں اربوں روپے کمانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ سب سے زیادہ فائدہ فرٹیلائزر کمپنیوں کو ہوا ہے جنہوں نے 138 ارب روپے جمع کر رکھے تھے، اور اب 69 ارب دیکر باقی رقم فرٹیلائزر کمپنیوں کو حاصل ہوگی۔ بڑی فرٹیلائزر کمپنیوں میں سے دو کمپنیاں پاک عرب اور فاطمہ فرٹیلائزرز معروف کاروباری شخصیت عارف حبیب کی ملکیت ہیں۔ یہ وہی عارف حبیب ہیں جو پاکستان سٹیل ملز کے خریداروں میں شامل تھے اور 21 ارب روپے میں پاکستان سٹیل ملز خرید رہے تھے۔ تاہم، سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باعث وہ یہ کاروباری منصوبہ مکمل نہ کر سکے۔ اینگرو فرٹیلائزرز کے مالک حسین داؤد ہیں جو موجودہ حکومت کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کے کزن بتائے جاتے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر اسی اینگرو کمپنی کے سی ای او بھی رہ چکے ہیں۔
ٹیکسٹائل سیکٹر کے کل واجبات 42.5 ارب روپے تھے، جس کا نصف 21 ارب روپے سے زائد بچا لیا گیا۔ آئی پی پی پیز کو چار ارب ادا کرنا تھے اور اب صرف دو ارب ادا کرنا ہونگے۔ ایس این جی پی ایل کے ذمہ 136 ارب کے واجبات میں سے 81 ارب 80 کروڑکے واجبات معاف کئے جائیں گے۔
کے الیکٹرک اور جنیکوز کے ذمہ 57 ارب کی رقم تھی اور اب 28.5 ارب کی رقم واجب الادا ہے۔
یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ حکومتی کمپنیوں او جی ڈی سی ایل اور اس کی ذیلی کمپنیوں نے اپنے ذمہ 50 فیصد سے زائد واج الادا رقم حکومت کو جمع کروا دی تھی۔ ایک کمپنی ماڑی پیٹرولیم نے تو 70 فیصد رقم جمع کروا دی تھی۔ اب جنہوں نے یہ رقم جمع کروائی کیا انہیں قومی خزانے سے آرڈیننس کے مطابق رقم واپس کی جائے گی؟ اس بات کا آرڈیننس میں کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
حکومت کا ردعمل
اس معاملے پر سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد منگل کے روز ہونے والے کابینہ اجلاس کے بعد ملک بھر کے میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے 208 ارب معاف کیے جانے کا نوٹس لے لیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، وزیر اعظم نے اس ضمن میں میڈیا پر چلنے والی خبروں پر وضاحت مانگ لی ہے اور کہا ہے کہ ٹیکس معافی سےمتعلق ابہام کو دور کیا جائے۔ عوام کو واضح انداز میں بتایا جائے کہ ٹیکس کیوں معاف کیا گیا۔
یہاں یہ بات ناقابل فہم ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی طرف سے بھجوائے جانے والے آرڈیننس جاری ہونے کے بعد وزیر اعظم کی طرف سے ہی نوٹس لینا کیا مطلب رکھتا ہے۔ کیا وزیر اعظم سے پوچھے بغیر ہی یہ آرڈیننس جاری ہوا، جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔
اس آرڈیننس کی حمایت میں وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس میں کہا کہ گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سرچارج کوئی نئی چیز نہیں۔ عدالتی فیصلے کے تحت قدم اٹھایا۔ بلکہ، سابقہ حکومت نے اس میں تبدیلی کر دی تھی اور یہ تاثر دیا گیا کہ اس سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ فرٹیلائزر سیکٹر پر آڈٹ ہوگا اور معاف کیے جانے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ ہم نے جو کام کیے وہ نیک نیتی اور شفاف طریقے سے کیے ہیں۔
اس موقع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کہا کہ فرٹیلائزر سیکٹرز کا قانون ہے کہ کھاد خریدنے سے پہلے آڈٹ ہو گا، جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے فریٹلائزر سیکٹر نے پیسے وصول کیے اور آگے نہیں دیے۔ تاہم، ابھی کھاد والوں کے پاس اسٹے آرڈرز ہیں۔ ہم ٹیکس کم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن، اسٹے آرڈرز کی وجہ سے کچھ نہیں ہو سکتا۔
اپوزیشن و عوامی ردعمل
اس معاملے پر اپوزیشن کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے اور حکومت کے اس عمل کو بڑے صنعت کاروں کے ساتھ ملی بھگت قرار دیا جا رہا ہے۔ سابق چئیرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید نیر حسین بخاری کہتے ہیں کہ قومی خزانے پر ڈاکہ ڈال کر سرکاری جماعت اور حکومتی شراکت داروں میں بندربانٹ شرمناک ہے۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ عوام کو گیس، بجلی اور اشیائے ضروریات پر سبسڈی دینے کی بجائے امرا پر نوازشات کی کیا وجوہات ہیں؟
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے مالی مددگاروں پر نوازشات عوام دشمنی کی ایک اور مثال ہے۔ اشرافیہ کی نمائندہ حکومت امیروں کو مزید امیر ترین کر رہی ہے، جبکہ عام لوگوں کا معاشی استحصال کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر بھی وزیر اعظم عمران خان کے ماضی میں مختلف چینلز کو دیے گئے انٹرویوز کے کلپس بڑی تعداد میں چلائے جا رہے ہیں جن میں عمران خان اپوزیشن پر لوٹ مار کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پیسہ ان کے باپ کا پیسہ تھا؟ سوشل میڈیا پر ان 208 ارب روپے کے لیے بھی وزیر اعظم کے یہی الفاظ دہرائے جا رہے ہیں۔