حکمران اور حزب مخالف کی جماعت کے مابین مجوزہ قانون کی بعض شقوں پر اختلافات کی وجہ سے متفقہ بل گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی مہرین انور راجہ کا کہنا ہے کہ طویل عرصے سے زیر التوا مجوزہ احتساب بل بحث اور منظوری آئندہ ہفتے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
’’ایک دفعہ یہ بل پہلے بھی اسمبلی پیش کیا گیا تھا لیکن اپوزیشن کے کچھ تحفظات تھے جس کی وجہ سے دوبارہ اس (مجوزہ بل) کو پارلیمانی کمیٹی میں بھیج دیا گیا اب میں سمجھتی ہوں کہ اتفاق رائے ہو گا اور اگلے ہفتہ اس بل کو پیش کریں گے۔‘‘
پیپلز پارٹی اور حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے مابین مجوزہ قانون کی بعض شقوں پر اختلافات کی وجہ سے متفقہ بل گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا۔
مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی انوشا رحمٰن کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت احتساب کا ایک موثر قانون چاہتی ہے اور اس کے لیے مجوزہ بل میں 58 ترامیم تجویز کی تھیں جن میں 54 پر اتفاق ہو چکا ہے لیکن چار شقوں پر اختلاف بدستور موجود ہے۔
’’ہماری رائے میں ان چار شقوں کے علاوہ تمام جو بل ہیں وہ اسمبلی میں آنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی مستقل یہ چاہتی رہی ہے کہ ہم ان شقوں سے متعلق اپنے اختلافی نوٹ واپس لے لیں لیکن ہم نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے اختلافی نوٹ کو پارلیمنٹ میں بھیج دیں اور اس کے بعد پارلیمان کو فیصلہ کرنے دیں کہ آیا کہ ہمارے موقف سے وہ متفق ہیں یا نہیں۔‘‘
مختلف امور پر لوگوں کی رائے جاننے اور سروے کرنے والی بین الاقوامی تنظیم گیلپ انٹرنیشنل سے منسلک پاکستانی ادارے گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن نے اپنی ایک تازہ جائزہ رپوٹ میں کہا ہے کہ پاکستانیوں کی نا پسندیدہ چیزوں میں بدعنوانی سرفہرست ہے۔
سروے میں شامل 2600 سے زائد مرد و خواتین میں سے 16 فیصد کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک پاکستان میں ’’کرپشن‘‘ ناپسندیدہ چیزوں میں سر فہرست ہے۔
پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی مہرین انور راجہ کہتی ہیں کہ بلا شبہ بدعنوانی ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن ان کی جماعت ایک ایسے موثر قانون کو پارلیمان سے منظور کروائے گی جس کے تحت بلا تفریق احتساب کیا جا سکے گا۔
’’احتساب بل لانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ تمام افراد کا احتساب ہونا چاہیئے خواہ وہ پارلیمنٹرین ہوں، جج، جنرل یا ان کا تعلق انتظامیہ سے ہو۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایک شفاف احتساب پاکستان کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔‘‘
مجوزہ احتساب بل کی پارلیمان سے متفقہ منظوری کے لیے گزشتہ ماہ پیپلز پارٹی کے وفاقی وزراء کے ایک وفد نے مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنماؤں سے ملاقات کی تھی جس کا مقصد بعض شقوں پر اعتراضات کو دور کرنا تھا۔
وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک کہہ چکے ہیں کہ مجوزہ احتساب بل میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ اس قانون کے تحت کسی کو سیاسی بنیاد پر نشانہ نا بنایا جا سکے نئے قانون میں اختیارات کسی ایک شخص کے پاس نہیں بلکہ کمیشن کے پاس ہوں گے۔