اسلام آباد —
حکمران پیپلز پارٹی اور حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے مابین کئی مہینوں پر محیط شدید سیاسی کشیدگی کے بعد جمعرات کو پہلی مرتبہ اسلام آباد میں ایک مذاکراتی دور ہوا جس میں مجوزہ احتساب بل کا مسودہ زیر بحث آیا۔
دونوں جماعتوں کے سینیئر اراکین پارلیمان کے درمیان دو گھنٹوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد مذہبی امور کے وزیر خورشید شاہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی احتساب بل کی متفقہ طور پر پارلیمان سے منظوری چاہتی ہے اور اسی مقصد کے لیے بات چیت کا یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ ماضی میں مجوزہ بل کی بعض شقوں پر اعتراضات کے بعد اسے قانونی شکل نہیں دی جا سکتی اور پیپلز پارٹی کے وفد سے ملاقات میں انہی تحفظات کو دور کرنے پر بات چیت کی گئی۔
’’اتفاق رائے نا ہونے کی وجہ قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے باوجود سابق وزیراعظم گیلانی نے یہ بل پارلیمانی کمیٹی کو بجھوا دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کا وفد یہ تجاویز لے کر آیا تھا کہ ان (تحفظات) کو کیسے حل کیا جا سکتا۔ ہماری جماعت کو یہ (تجاویز) منظور ہوں گی یا نہیں اس کا فیصلہ پارٹی قیادت کرے گی۔‘‘
وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک بھی پیپلز پارٹی کے مذاکراتی وفد میں تھے۔ انھوں نے مجوزہ احتساب بل کے اہم نکات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت انسداد بدعنوانی کا ایک فعال قانون متعارف کرانا چاہتی ہے۔
’’کسی کو سیاسی بنیاد پر نشانہ نہیں بنانا چاہیئے، کسی کو ہراساں نہیں کیا جانا چاہیئے اور (مجوزہ بل) میں جو بھی اختیارات دیے گئے ہیں وہ ایک شخص کے پاس نہیں ہوں گے بلکہ کمیشن کے پاس ہوں کہ جو مل جل کر فیصلہ کرے گا۔‘‘
سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے وفد سے ملاقات میں ایجنڈے پر صرف احستاب بل کا ایشو تھا اس لیے آئندہ عام انتخابات سے قبل نگران حکومت کے قیام اور نئے صوبوں کے قیام سے متعلق کمیشن کی تشکیل پرکوئی بات چیت نہیں گئی ۔
دو طرفہ مذاکرات کے کچھ ہی دیر بعد مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنماء احسن اقبال نے ایک نیوز کانفرنس میں عام انتخابات سے قبل مجوزہ بلدیاتی انتخابات کی مخالفت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پیپلز پارٹی کے ایسے کسی بھی اقدام کا مقصد انتخابی عمل کو موخر کرنا ہے۔ تاہم وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت وفاقی وزراء یہ کہتے ہیں کہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔
دونوں جماعتوں کے سینیئر اراکین پارلیمان کے درمیان دو گھنٹوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد مذہبی امور کے وزیر خورشید شاہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی احتساب بل کی متفقہ طور پر پارلیمان سے منظوری چاہتی ہے اور اسی مقصد کے لیے بات چیت کا یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ ماضی میں مجوزہ بل کی بعض شقوں پر اعتراضات کے بعد اسے قانونی شکل نہیں دی جا سکتی اور پیپلز پارٹی کے وفد سے ملاقات میں انہی تحفظات کو دور کرنے پر بات چیت کی گئی۔
’’اتفاق رائے نا ہونے کی وجہ قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے باوجود سابق وزیراعظم گیلانی نے یہ بل پارلیمانی کمیٹی کو بجھوا دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کا وفد یہ تجاویز لے کر آیا تھا کہ ان (تحفظات) کو کیسے حل کیا جا سکتا۔ ہماری جماعت کو یہ (تجاویز) منظور ہوں گی یا نہیں اس کا فیصلہ پارٹی قیادت کرے گی۔‘‘
وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک بھی پیپلز پارٹی کے مذاکراتی وفد میں تھے۔ انھوں نے مجوزہ احتساب بل کے اہم نکات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت انسداد بدعنوانی کا ایک فعال قانون متعارف کرانا چاہتی ہے۔
’’کسی کو سیاسی بنیاد پر نشانہ نہیں بنانا چاہیئے، کسی کو ہراساں نہیں کیا جانا چاہیئے اور (مجوزہ بل) میں جو بھی اختیارات دیے گئے ہیں وہ ایک شخص کے پاس نہیں ہوں گے بلکہ کمیشن کے پاس ہوں کہ جو مل جل کر فیصلہ کرے گا۔‘‘
سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے وفد سے ملاقات میں ایجنڈے پر صرف احستاب بل کا ایشو تھا اس لیے آئندہ عام انتخابات سے قبل نگران حکومت کے قیام اور نئے صوبوں کے قیام سے متعلق کمیشن کی تشکیل پرکوئی بات چیت نہیں گئی ۔
دو طرفہ مذاکرات کے کچھ ہی دیر بعد مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنماء احسن اقبال نے ایک نیوز کانفرنس میں عام انتخابات سے قبل مجوزہ بلدیاتی انتخابات کی مخالفت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پیپلز پارٹی کے ایسے کسی بھی اقدام کا مقصد انتخابی عمل کو موخر کرنا ہے۔ تاہم وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت وفاقی وزراء یہ کہتے ہیں کہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔