پاکستان کی طرف سے تعلیمی وظائف پر زیر تعلیم درجنوں افغاں طلبا نے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں ایسی جامعات میں داخلہ دیا جائے جو اعلیٰ تعلیم کے سرکاری ادارے سے تصدیق شدہ ہوں اور جن کی اسناد بھی مستند ہوں بصورت دیگر ان کا مستقبل خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔
پاکستان نے جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان کے طالب علموں کے لیے وظائف کا پروگرام شروع کر رکھا ہے اور رواں سال کے اوائل میں مزید تین ہزار افغان طلبا کو پاکستانی جامعات میں تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے وظائف کا اعلان کیا گیا تھا۔
لیکن منگل کو اسلام آباد میں افغان سفارتخانے کے سامنے احتجاج کرنے والے طلبا کا کہنا تھا کہ ان سے قبل پاکستان سے اپنی تعلیم مکمل کرنے والے کئی طلبا کو ابھی تک تعلیمی اسناد نہیں مل سکی ہیں اور اسی تناظر میں انھیں اپنا مستقبل بھی تاریک نظر آتا ہے۔
یہ طلبا لاہور میں ایک نجی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں جو ایک افغان طالب علم راہنما بلال احمد جلال کی سربراہی میں اسلام آباد آئے تھے۔
بلال احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
بعد ازاں افغان سفیر عمر زخیلوال نے ان طلبا کو سفارتخانے میں بلا کر ان کے مطالبات سنے اور بلال احمد جلال کے بقول سفیر نے انھیں تین ہفتوں میں ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے اقدام کرنے کا یقین دلایا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال ایسی خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ تعلیمی وظائف کے علاوہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزین خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کو بھی تعلیمی اسناد کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جس پر انھوں نے مظاہرے بھی کیے۔
لیکن حکومت میں شامل عہدیداروں نے ان کے تحفظات دور کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی تھی کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے والوں کو تعلیمی اسناد ہر صورت فراہم کی جائیں گی۔
دریں اثنا اسلام آباد میں افغان سفیر عمر زخیلوال نے منگل کو وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کی جس میں خاص طور پر چمن اسپن بولدک سرحد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ سرحد گزشتہ جمعہ کو دونوں جانب کی فورسز کے درمیان فائرنگ و گولہ باری کے مہلک تبادلوں کے بعد سے بند ہے۔