منگل کے روز بھارتی وزیر دفاع نِرملا سیتا رمن نے امریکی وزیر دفاع میٹس کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت افغانستان میں اپنی افواج نہیں بھیجے گا، لیکن وہ افغانستان کی امداد جاری رکھے گا۔
دورہ بھارت کے بعد، امریکی وزیر دفاع، پاکستان نہیں گئے بلکہ وہاں سے افغانستان چلے گئے، جس سے یہ سوالات پیدا ہو ئے کہ کیا امریکہ نے بھارت سے افغانستان میں اپنی فوج بھیجنے کے لیے کہا تھا اور کیا اب امریکہ افغان جنگ میں پاکستان کو نظر انداز کر رہا ہے۔
جب ایک امریکی تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں قائم پاکستان سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون سے پوچھا گیا کہ آیا امریکہ نے بھارت سے اپنی افواج افغانستان بھیجنے کے لیے کہا تھا یا یہ بات مذاكرات کے دوران زیر بحث آئی تھی، تو ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ کسی کو علم نہیں کہ مذاكرات کے دوران کیا باتیں ہوئی، لیکن جو کچھ سامنے آیا ہے اس سے کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا کہ امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس نے بھارت سے اپنی فورسز بھیجنے کے لیے کہا ہو۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان پالیسی کے اعلان کرتے ہوئے بھارت سے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں ایک وسیع تر کردار ادا کرے۔
ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ ایک بڑے تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں امکانی طور پر جو ہوا ہو گا وہ یہ ہے کہ بھارت کو مزید کچھ کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے، اور بھارت کے وزیر دفاع نے یہ کہا ہے کہ ہم زیادہ کچھ تو کریں گے، لیکن اس میں افغانستان میں بھارتی افواج بھیجنا شامل نہیں ہے۔ سو ایک طرح سے ان کی یہ بات حفظِ ماتقدم کے طور پر کہی گئی کہ کہیں فورسز کے حوالے سے کوئی براہ راست درخواست نہ کر دی جائے۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ایسے اشارے سامنے نہیں آئے کہ اس دورے میں حقیقتا کوئی ایسی درخواست کی گئی تھی۔
سابق معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیائی امور، کارل اِنڈرفرتھ سے جب بھارتی وزیر دفاع کے بیان سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ اُنہیں ا س بیان پر کوئی حیرت نہیں ہوئی، کیونکہ بھارت کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ وہ افغانستان میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھارت کا فیصلہ بالکل درست ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ بھارت کا درست فیصلہ ہے بلکہ میرے خیال میں پاکستان بھی اس بات سے مکمل اتفاق کرے گا کہ بھارتی فوج کو أفغان سرزمین پر موجود نہیں ہونا چاہیئے۔ میرے خیال میں یہ بھارت کی جانب سے سرکاری سطح پر اپنی پالیسی کا اعادہ تھا، اور مجھے یقین ہے کہ وزیر دفاع میٹس نے یہ واضح طور پر سمجھ لیا ہے۔
اس سوال پر کہ امریکی وزیر دفاع بھارت سے سیدھے افغانستان چلے گئے اور پاکستان نہیں گئے، تو کیا امریکہ پاکستان کو نظر انداز کر رہا ہے؟ جواب میں کارل انڈر فرتھ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جا رہا، لیکن ہوا یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے بڑی سخت زبان میں افغانستان میں پاکستان کے کردار اور اس کی طالبان کی حمایت کے معاملے پر تنقید کی تھی، جس کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ نے امریکہ کا دورہ منسوخ کر دیا تھا ۔ آج کل امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ اور اس بنا پر جیمس میٹس پاکستان نہیں گئے۔ تاہم ان کا کہنا تھا انہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل قریب میں وہ اسلام آباد جائیں گے، اور جب وہ جائیں، تو اس وقت کے لیے ان کی ایک تجویز ہے اور یہی تجویز وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے لیے بھی ہے کہ وہ بھی جب اسلام آباد جائیں تو پاکستان اور بھارت کی اس بارے میں حوصلہ افزائی کریں کہ دونوں ملک براہ راست، بند دروازوں کے پیچھے افغانستان کے متعلق بات چیت کریں، اور یہ کام ان دونوں کو ہی کرنا ہے کیونکہ افغانستان میں طویل مدتی قیام ِامن کے لیے یہ چیز بہت ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا ایک اور کام جو امریکی وزیر دفاع کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان کی اس بارے میں حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر کسی نہ کسی طرح کی بات چیت کا آغاز کرے، جس میں دونوں ملک اپنے اُن باہمی شکوک اور مفادات کے بارے میں بات کریں، جو افغانستان میں ان کے لئے تصادم کا باعث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ أفغانستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکے گا، جب تک بھارت اور پاکستان افغانستان کے حوالے سے اپنے تنازعات کو حل نہیں کرتے۔
دورہ بھارت اور افغانستان میں پاکستان کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی پر مسلسل اپنی ناپسندیدگی کے بارے میں پیغام دیتا آ رہا ہے اور امریکی وزیر دفاع کا پاکستان نہ جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے اشتراک کو کم اہمیت دے رہا ہے۔ تاہم ایسا کوئی اشارہ نظر نہیں آ رہا جس سے یہ ظاہر ہو کہ امریکہ، کم از کم اس وقت، پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کرنے کا خواہاں ہے، اور جتنی بھی بیان بازی ہم سن رہے ہیں وہ دباؤ بڑھانے کے لیے ہے نہ کہ اس کا مقصد کسی قسم کا قدم اٹھانا ہے۔
ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ امریکہ نے جو کوئی بھی اقدامات اٹھائے ہیں وہ پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے کیے ہیں۔ امریکہ کو اب بھی پاکستان کی شمولیت کی ضرورت ہے۔ اور وہ اس طرح سے کہ امریکہ وہاں کسی بھی بغاوت کے کامیاب انسداد کے لیے پاکستان کے کردار کو انتہائی اہم سمجھتا ہے۔ اس لئے وہ پاکستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔