کابل میں گزشتہ ہفتے امریکی سفارتخانے پر حملے کو اعلیٰ امریکی حکام حقانی نیٹ ورک کی کارروائی قرار دے چکے ہیں اور پاکستان میں امریکہ کے سفیر کیمرون منٹر نے بھی اپنے ایک بیان میں اسی بات کو دوہرایا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے امریکی عہدیداروں کے بیانات کی تردید بھی سامنے آچکی ہے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ یہ کہہ چکی ہیں کہ امریکی عہدیداروں کے بیانات پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی درست نوعیت کی عکاسی نہیں کرتے۔
دوسری طرف یہاں واشنگٹن میں ایک تحقیقی ادارے کارنیگی انڈاؤمنٹ فار پیس میں ایک گفتگو کے دوران ایڈمرل مائیک ملن نے پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات کا ذکر کیا اور کہا کہ انہوں نے پاکستان کے حقانی نیٹ ورک سے تعلقات کا معاملہ بھی اٹھایا تھا۔
http://www.youtube.com/embed/DDIb89B3C3s
ان کا کہناتھا کہ جنرل کیانی کے ساتھ چار گھنٹے تک ملاقات ہوئی جس میں ہم نے تمام اہم موضوعات پر بات کی۔ میں نے حقانی نیٹ ورک کی جانب سے درپیش خطرات کے بارے میں بات کی۔ حقانی نیٹ ورک کو اپنی کارروائیاں ختم کرنی ہونگی۔ پاکستان کو اس گروہ سے الگ رکھنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر ہم خطے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔
امریکی فوج کے سربراہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کونازک قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانےو الی جنگ میں پاکستانی فوج نے بہت قربانیاں دیں ہیں مگرپاکستان کے اہم اداروں میں طالبان کے حمایتی عناصر کی موجودگی اس جنگ کو غلط سمت میں لے جارہی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستانی فوج نے انہیں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے یا نہیں، انہوں نے کسی تصدیق یا تردید سے گریز کیا ۔ ان کا کہناتھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں اور فوجوں کے درمیان مضبوط تعلقات کتنے اہم ہیں۔
مائیک ملن کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت اپنے فوجیوں اور اہلکاروں کے تحفظ کے لئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گی۔ مگرانہوں نے کسی ممکنہ اقدام کی تفصیلات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ۔تا ہم واشنگٹن کے ایک تحقیقی ادارے سینٹر فار امریکن پروگریس سے منسلک لارنس کارب کہتے ہیں کہ امریکہ ڈرون طیاروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ دہشت گردگروہوں کے راہنماؤں کو ہلاک کرنے کے لئے پاکستان کے اندر بھی کارروائی کر سکتا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ ہم اسامہ بن لادن کے خلاف حملے کی طرز کی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ اگر ہمیں معلوم ہوا کہ حقانی کہاں ہے ، تو ہم اسے گرفتار کر سکتے ہیں ۔ شاید ہم پاکستان کو بتائیں بھی نہیں۔ سن 2001 ءمیں کانگرس میں قرارداد منظور ہوئی تھی کہ امریکہ پر حملوں کے ذمہ دار دہشت گرد جہاں بھی کہیں ہونگے امریکہ انہیں ڈھونڈ نکالے گا۔ہم یمن، جبوتی اور پاکستان میں ایسی کاروائیاں کر رہے ہیں۔ مگر ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیئے کہ پاکستانی فوج ہماری لڑائی لڑے گی۔ وہ ایسا ہر گز نہیں کریں گے۔
ایڈمرل مائیک ملن نے افغانستان کے سابق صدر برہان الدین ربانی کی ہلاکت کے بارے میں کہا کہ یہ واقعہ طالبان اور عسکریت پسندوں کی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے جس کے تحت وہ اہم سیاسی اور سرکاری عہدیداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کو یقینی بنانا ہوگا کہ امن اور ٕمصالحت کا عمل رک نہ جائے اور ملک غیر مستحکم نہ ہو۔