شمالی وزیرستان کے تاجر کہتے ہیں کہ اس علاقے کو پورے ملک کے عوام کے لیے کھولنا چاہیے۔ اس طرح یہاں سے کاروبار پورے ملک تک پھيلے گا کيونکہ مقامی آبادی بڑے پيمانے پر خريداری کی سکت نہیں رکھتی۔
شير ولی خان شمالی وزيرستان ميں تاجر برادری کی کاروباری تنظیم کے چيئرمين ہيں۔ اُن کا خاندان کئی دہائيوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کر رہا ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے شير ولی نے بتايا کہ آپريشن ضرب عضب سے پہلے ميران شاہ ميں کاروبار عروج پر تھا۔ جس کا فائدہ نہ صرف مقامی لوگ اٹھا رہے تھے بلکہ يہاں سے پورے ملک ميں غیر ملکی اشياء کی ترسیل ہوتی تھی جس سے روزگا کے بھی بے پناہ مواقع موجود تھے۔
خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں شمالی وزیرستان میں افغانستان کے ساتھ سرحدی تجارتی راستہ 'غلام خان ٹرمینل' فعال کیا گیا ہے جس کے بعد علاقے میں تجارت کے نئے مواقع دیکھے جا رہے ہیں۔
جون 2014 ميں جنگجوؤں کے خلاف فوجی آپريشن کی وجہ سے لاکھوں افراد کو علاقہ بدر ہونا پڑا تھا۔ جس کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں غلام خان– خوست بارڈر بھی مکمل طور پر بند کر ديا گيا تھا۔ اس وجہ سے یہاں کاروباری سرگرمیوں کو شدید دھچکا لگا تھا۔
علاقے ميں سکیورٹی صورت حال میں بہتری کے بعد ایک مرتبہ پھر یہاں کاروباری سرگرمیوں میں تیزی دیکھی جارہی ہے۔
شير ولی اب فولاد کے کاروبار سے منسلک ہيں اور اپنا سارا سامان لاہور سے منگواتے ہيں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر يہی سامان وہ افغانستان سے منگوائيں تو بہت سستا پڑے گا۔
وہ پُراميد ہيں کہ غلام خان ٹرمينل کے دوبارہ فعال ہونے سے علاقے میں کاروبار کو فروغ ملے گا جو نہ صرف لوگوں کی معاشی حالت بدلے گا بلکہ روزگار ميں بھی بہتری آئے گی جس سے علاقے میں دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
شير ولی کا کہنا ہے کہ اس وقت ميران شاہ سے آٹا، گھی، داليں اور ديگر اشياء افغانستان برآمد ہوتی ہيں جبکہ افغانستان سے پھل، خشک ميوہ جات، کوئلہ اور دیگر معدنيات درآمد ہوتی ہيں۔
اُن کا کہنا ہے کہ شمالی وزيرستان کو پورے ملک کے عوام کے لیے کھولنا چاہیے۔ اس طرح سے کاروبار پورے ملک تک پھيلے گا کيونکہ مقامی لوگوں ميں تو اتنے بڑے پيمانے پر خريد کی سکت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ شمالی وزيرستان ميں حکام اکثر و بیشتر دفعہ 144 کا نفاذ اور غير مقامی افراد کا داخلہ ممنوع قرار ديتے رہتے ہيں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر مینجمنٹ کے تحت اب تک تین بڑے سرکاری ٹرمینل طورخم، خرلاچی اور چمن کے ذریعے تجارت ہوتی تھی۔
حکومت پاکستان نے تجارت کو فروغ دینے کے لیے مارچ 2018 میں شمالی وزیرستان کے غلام خان ٹرمینل کا بھی افتتاح کیا تھا۔ تاہم افغان حکومت نے اس ٹرمینل سے تجارت ممنوع قرار دی تھی۔
رواں سال 19 اگست کو افغانستان کے صد سالہ جشن آزادی پر خوست کے گورنر ہزاروں افراد کے ساتھ غلام خان ٹرمینل کے زیرو پوائنٹ پر آئے اور 40 کوئلے کے ٹرکوں کو پاکستان جانے کی اجازت دی۔
اس اقدام کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت کے لیے چوتھا سرکاری ٹرمینل غلام خان مکمل طور پر فعال ہوا ہے۔
غنی الرحمٰن غلام خان بارڈر پر تحصيل دار کی حيثيت سے فرائض انجام ديتے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ يہ نئی راہ داری علاقے کی قسمت بدل دے گی۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے غنی الرحمٰن نے بتايا کہ پاکستان سے زيادہ تر سيمنٹ جبکہ افغانستان سے ميوہ جات درآمد کیے جاتے ہيں۔
اُن کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف سے یومیہ 40 سے 50 ٹرک ادھر ادھر جاتے ہيں جبکہ ٹرمينل صبح سات بجے سے شام پانچ بجے تک کھلا رہتا ہے۔
شہزار علی خان عرصہ دراز سے کپڑے کا کاروبار کر رہے ہيں۔ وہ بتاتے ہیں کی غلام خان ٹرمينل کا بحال ہونا خوش آئند ہے۔ تاہم اس کی افاديت تب ہی بہتر انداز سے سامنے آ سکے گی جب يہاں سے عام لوگوں کی آمد و رفت بھی شروع ہو۔
انہوں نے مزيد بتايا کہ پاکستان کے کپڑے کی افغانستان ميں بہت مانگ ہے۔ اسی لیے مقامی تاجر چاہتے ہيں کہ تجارت آزادانہ ماحول ميں ہو۔
فوجی آپريشن کے دوران شہزار علی خان اپنے خاندان کے ہمراہ پشاور منتقل ہو گئے تھے جس سے اُن کو کاروبار میں کافی نقصان ہوا تھا۔ اب وہ پراميد ہيں کہ علاقے ميں امن آنے کے بعد روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دوسری سرحدی گزر گاہوں کے مقابلے میں غلام خان ٹرمینل پر ٹيکس کی شرح بھی بہت زيادہ ہے جو کہ تاجر برادری کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔
تحصيل دار غنی الرحمٰن نے اس بات کی تائيد کرتے ہوئے بتايا ہے کہ عمومی سامان کے ٹرک پر خرلاچی کے مقام پر 24000 روپے جبکہ غلام خان ٹرمينل پر 50000 روپے ٹيکس وصول کيا جاتا ہے۔ اسی طرح ايک انڈوں کے ٹرک پر خرلاچی ٹرمينل میں 4000 جبکہ غلام خان ٹرمینل پر 12000 روپے ٹيکس وصول ہوتا ہے۔
علی داوڑ ميران شاہ بازار ميں روزمرہ کی عمومی اشیا کا کاروبار کرتے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات ميں ان کا کاروبار اچھا نہی چل رہا۔ اس کی بنيادی وجہ افغانستان کے ساتھ سرحد کی بندش ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے علی داوڑ نے کہا کہ موجودہ حالات ميں وہ سامان لاہور اور کراچی سے منگواتے ہيں جو کہ دور پڑتے ہيں۔
ان کا کہنا تھا کہ کابل اور وسطی ايشيائی رياستيں لاہور اور کراچی کے مقابلے میں نزديک پڑتی ہيں۔ وہاں کا سامان نہ صرف مقامی آبادی بلکہ پاکستان کے دوسرے علاقوں ميں بھی مقبول ہے۔
پاکستان کا افغانستان کے ساتھ تجارت کا کُل حجم ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز ہے جبکہ 2010 ميں يہ حجم دو ارب 70 کروڑ ڈالرز تک گيا تھا ليکن حالات کی وجہ سے يہ شرح بدستور کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔
ماہرين کا خيال ہے کہ تجارتی روابط نہ صرف سرحد کے دونوں جانب عوام کے مابين بہتر تعلقات کا باعث بنيں گے بلکہ اس سے لوگوں ميں خوش حالی کی نئی لہر بھی ابھرے گی۔
زاہد شنواری پاک افغان جوائنٹ چيمبر آف کامرس کے صدر ہيں۔ وہ کہتے ہیں کہ غلام خان بارڈر سے 2013 تک صرف سيمنٹ ہی افغانستان کو برآمد کيا جاتا تھا ليکن پھر 2014 ميں اس کو ہر طرح کی تجارت کے لیے کھول ديا گيا ليکن بدقسمتی سے حالات خراب ہوگئے اور يہ بارڈر طويل مدت تک بند کرنا پڑا۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے زاہد شنواری نے بتايا کہ اب ماحول اچھا ہے۔ بنوں-غلام خان سڑک بھی تعمیر ہوچکی ہے اور اس نئے ٹرمينل کے ذریعے پورے ملک میں باآسانی تجارت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مزيد بتايا کہ اس وقت تجارت صرف دن کی روشنی ميں ہی ہوتی ہے جس کی بنيادی وجہ افغانستان میں کسٹم ہاوؑس (جسے افغانی ميں گُرمک کہتے ہيں) بہت دور ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ٹرميںل سے تجارت میں اضافہ تب ہی ہو گا جب سرحد پار افغانستان میں سکیورٹی بہتر ہو جائے گی۔
زاہد شنواری کا کہنا تھا کہ غلام خان بارڈر پر سے تجارت کھلنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تجارت صرف دو سال ميں پانچ ارب ڈالرز تک جا سکتی ہے۔ اگر وسطی ايشيائی رياستوں تک رسائی حاصل ہو تو يہ 30 ارب ڈالرز تک بھی جا سکتی ہے۔