قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین اویس لغاری کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے افغانستان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ اپنی سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نا ہونے دے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ نے پڑوسی ملک افغانستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں حکومت سے سفارش کی ہے کہ وہ افغانستان سے قریبی تعلقات استوار کرنے کی پالیسی کو مزید موثر بنائے۔
قائمہ کمیٹی کی یہ سفارش موجودہ حکومت کی پالیسی کے عین مطابق ہے کہ کیوں کہ وزیراعظم نواز شریف اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ کابل حکومت سے قریبی تعلقات چاہتے ہیں اور اُنھوں نے صدر حامد کرزئی کی دعوت پر افغانستان کا دورہ بھی کیا تھا۔
قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اویس لغاری نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کی نگرانی کے عمل کو مزید موثر بنایا جائے کیوں کہ اُن کے بقول یہ معاملہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے ’ریڑھ کی ہڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
’’ہم نے کہا کہ ان دو ملکوں (افغانستان اور پاکستان) کے درمیان بغیر کسی تیسرے ملک کی مداخلت بغیرکے تعلقات مضبوط ہونے چاہیئں۔‘‘
خارجہ اُمور کی قائمہ کمیٹی کی طرف سے یہ سفارشات ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر رنگین دادفر نے اطلاعات کے مطابق یہ الزام لگایا کہ پاکستان کی رکاوٹ کے باعث افغان مصالحتی عمل آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔
اعلٰی افغان عہدیدار کے اس الزام کے جواب میں پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ایک تحریری بیان میں کہا کہ پاکستان افغان مصالحتی عمل اور قیام امن کی کوششوں میں تعاون کے موقف پر قائم ہے۔
اُنھوں نے بیان میں کہا کہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ دیرپا امن کے قیام کے لیے افغانوں کی زیر قیادت مصالحتی عمل میں تمام فریقوں کی شمولیت ضروری ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے اس ضمن میں ٹھوس کوششیں بھی کی ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین اویس لغاری کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے افغانستان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ اپنی سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نا ہونے دے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے لیے کابل حکومت کی درخواست پر وہ اپنے ہاں قید کئی اہم طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہے جن میں طالبان کے سابق نائب امیر ملا عبد الغنی برادر بھی شامل ہیں۔
دفتر خارجہ کی ترجمان نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ 27 جنوری کو واشنگٹن میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹیجک مذاکرات کے موقع پر دونوں ملکوں نے طالبان پر زور دیا کہ وہ افغان حکومت سے مذاکرات کے عمل میں شامل ہوں۔
قائمہ کمیٹی کی یہ سفارش موجودہ حکومت کی پالیسی کے عین مطابق ہے کہ کیوں کہ وزیراعظم نواز شریف اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ کابل حکومت سے قریبی تعلقات چاہتے ہیں اور اُنھوں نے صدر حامد کرزئی کی دعوت پر افغانستان کا دورہ بھی کیا تھا۔
قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اویس لغاری نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کی نگرانی کے عمل کو مزید موثر بنایا جائے کیوں کہ اُن کے بقول یہ معاملہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے ’ریڑھ کی ہڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
’’ہم نے کہا کہ ان دو ملکوں (افغانستان اور پاکستان) کے درمیان بغیر کسی تیسرے ملک کی مداخلت بغیرکے تعلقات مضبوط ہونے چاہیئں۔‘‘
خارجہ اُمور کی قائمہ کمیٹی کی طرف سے یہ سفارشات ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر رنگین دادفر نے اطلاعات کے مطابق یہ الزام لگایا کہ پاکستان کی رکاوٹ کے باعث افغان مصالحتی عمل آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔
اعلٰی افغان عہدیدار کے اس الزام کے جواب میں پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ایک تحریری بیان میں کہا کہ پاکستان افغان مصالحتی عمل اور قیام امن کی کوششوں میں تعاون کے موقف پر قائم ہے۔
اُنھوں نے بیان میں کہا کہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ دیرپا امن کے قیام کے لیے افغانوں کی زیر قیادت مصالحتی عمل میں تمام فریقوں کی شمولیت ضروری ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے اس ضمن میں ٹھوس کوششیں بھی کی ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین اویس لغاری کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے افغانستان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ اپنی سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نا ہونے دے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے لیے کابل حکومت کی درخواست پر وہ اپنے ہاں قید کئی اہم طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہے جن میں طالبان کے سابق نائب امیر ملا عبد الغنی برادر بھی شامل ہیں۔
دفتر خارجہ کی ترجمان نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ 27 جنوری کو واشنگٹن میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹیجک مذاکرات کے موقع پر دونوں ملکوں نے طالبان پر زور دیا کہ وہ افغان حکومت سے مذاکرات کے عمل میں شامل ہوں۔