پاکستان اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون پر اتفاق کیا ہے۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باوجوہ نے پیر کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئیٹر‘ پر ایک پیغام میں کہا کہ پاکستانی فوج کے انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ اور افغانستان کے خفیہ ادارے ’نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی‘ کے درمیان مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کیے گئے۔
دونوں ممالک کے انٹیلی جنس ادارے دہشت گردوں سے متعلق خفیہ معلومات کے تبادلے کے علاوہ اپنی اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے خلاف مربوط کارروائیوں کے لیے بھی تعاون کریں گے۔
پاکستانی قانون ساز اس مفاہمت کی یاداشت کو دہشت گردی کے خلاف ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹ کے رکن سراج الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردی اور بدامنی کے شکار دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان یہ تعاون انتہائی اہم ہے۔
’’ہم اس کو سراہتے ہیں اور پاکستان کی حکومت کو ہم نے ہمیشہ مشورہ دیا ہے کہ آ پ افغانستان میں کسی ایک گرو، کسی ایک تنظیم، یا حکومت کی بجائے افغان عوام کا ساتھ ۔۔۔۔اگر دونوں نے تعاون کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ دونوں کے مفاد میں ہے تو اب اعلانات کی بجائے عمل سے ثابت کرنا پڑے گا کہ ہاں ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمٰن ملک کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت جب دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں اس طرح کا تعاون دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور افغانستان اس وقت جس طر ح کے حالات اور چیلنجوں سے گزر رہے ہیں تو اس میں نہ صرف انٹلیجنس سطح پر بلکہ سیاسی اور فوجی سطح پر بھی تعاون ہونا چاہیئے، اور مجھے امید ہے کہ جس طرح ہماری حکومت کام کر رہی ہے اور (صدر) اشرف غنی بھی مثبت ںظر آتے ہیں، اگر اس انداز سے آگے بڑھتے ہیں تو بہت اچھا ہو گا۔‘‘
سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے قانون ساز طلحہ محمود بھی پاکستان اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان رابطوں کو اہم قرار دیتے ہیں۔
’’میں سجمھتا ہوں کہ اس سے ہمارے پاکستان کے اندر امن و امان کی صورت حال بہتر کرنے میں مدد ملے گی اور میں اس کو اچھا عمل کہتا ہوں کہ اس میں ہمیں مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور اس میں افغانستان کا اہم کردار ہو گا۔‘‘
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا کا اس بارے میں کہنا تھا کہ اس تعاون سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
’’ہم اپنے تعلقات کو مزید مضبوط اور پائیدار کر سکتے ہیں اور اگر اس میں ہماری پیش رفت ہو گی تو یہ خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔‘‘
سرکاری طور پر یہ تو نہیں بتایا گیا کہ دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان اس مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کب ہوئے لیکن اطلاعات کے مطابق یہ پیش رفت پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ کابل کے دوران ہوئی۔
ماضی کی برعکس حالیہ مہینوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون اور رابطوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ ہفتے اپنے دورہ کابل کے دوران افغان صدر اشرف غنی کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ افغانستان کے دشمن پاکستان کے دوست نہیں ہو سکتے۔
اُنھوں نے افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں تیزی اور افغان طالبان کی طرف سے ’عزم‘ نامی کارروائیوں کی شدید مذمت کی۔ پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس طرح کے حملوں کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے طور پر دیکھا جائے گا اور پاکستان ان کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔