افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے کہا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستان اور طالبان کے درمیان کوئی کشیدگی ہے۔ بقول ان کے، دونوں خود مختار ممالک ہیں اور اسی حیثیت میں ہمارے تعلقات بھی قائم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری 2600 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور بہت بڑی تعداد میں لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے، منصور احمد خان نے کہا کہ زیادہ مسائل بھی اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ سرحدی کراسنگ سے لوگ بڑی تعداد میں آتے جاتے ہیں اور بڑے پیمانے ہر تجارت ہوتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ مسائل اسی وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں کیونکہ پاکستان آنے کے لئے ویزا درکار ہوتا ہے جب کہ لوگ باقاعدہ کاغذات کے ساتھ سفر کے عادی نہیں ہیں اور اور بہت سے لوگوں کے ہاس تو درکار کاغذات موجود ہی نہیں ہوتے۔ بقول ان کے، خاص طور پر لوگوں کو علاج معالجے کے لئے ہاکستان آنا پڑتا ہے۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ اس سلسلے میں پاکستان یہ کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ ایک ایسے نظام کا اجرا کیا جائے جس میں سفر تو باضابطہ کاغذات کے ساتھ ہو، لیکن کچھ گنجائش پیدا کی جا سکے کہ ایمرجنسی میں جو لوگ علاج کے لئے آئیں انہیں استثنا بھی حاصل ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ان باتوں سے قطع نظر ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ طالبان حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت سابقہ حکومت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت سے کس اعتبار سے مختلف ہے، جس پر انھوں نے کہا کہ پاکستان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ افغانستان کو انگیج رکھا جائے اور سابقہ حکومت یعنی اشرف غنی حکومت کے ساتھ بھی ہماری یہی کوشش رہتی تھی۔
لیکن بہرحال ان کے ساتھ بعض شعبوں میں رابطوں کے حوالے سے، خاص طور پر سیکیورٹی کے مسائل پر یا کراس بارڈر مسائل پر دشواریاں بھی ہوتی تھیں، جب کہ اس حکومت کے ساتھ ہمارا خیال ہے کہ ابھی تک ہمارے تعلقات ہر شعبے میں ٹھیک جا رہے ہیں؛ اور تمام معاملات کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لئے دونوں فریق سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے تسلیم کئے جانے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ تسلیم کرنے کا عمل ایک بین الاقوامی عمل ہے جس کا انحصار عالمی برادری اور افغانستان کے پڑوسی ملکوں کی جانب سے تسلیم کئے جانے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب 8 ستمبر کو طالبان نے اپنی حکومت بنائی تھی تو اس کے چھ پڑوسی ملکوں کے وزراء خارجہ کی ایک میٹنگ بھی اسلام آباد میں ہوئی تھی جس میں طے کیا گیا تھا کہ طالبان کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں جو بھی رویہ اختیار کریں گے وہ باہمی مشاورت سے اختیار کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ اسی فیصلے کے تحت سب کی توجہ افغانستان کے ساتھ انسانی بنیادوں اور معاشی مسائل کے حل پر تو ہے، لیکن باضابطہ تسلیم کرنا، اس عمل کے نتائج اور تمام ہمسایہ اور علاقے کے ملکوں پر منحصر ہے، جس میں ان ملکوں کی مشاورت بھی شامل ہو گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت سے بین الاقوامی برادری کا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت جامع ہونی چاہئے؛ حقوق انسانی کی پاسداری کی جانی چاہئے اور گورننس کے معاملات درست ہونے چاہئیں۔ تو اس حکومت کو تسلیمُ کیا جانا ان تمام امور سے مشروط ہے اور اس سارے عمل کے لئے وقت درکار ہو گا۔
افغنستان کے لئے پی آئی اے کی پروازوں کی معطلی، پر ایک ٹویٹ اور افغنستان کے لئے پاکستان کے ایلچی محمد صادق خان کی اس ٹوئٹ کے بارے میں کہ پاکستان نے پہلی بار اپنی فضائی تجارتی حدود کو افغانستان کے لئے کمرشل کارگو بھیجنے کے لیے کھول دیا ہے۔ اس ضمن میں پاکستانی سفیر نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ 15 اگست کے بعد پی آئی اے کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حالات کے سبب انہیں انشورنس کی مد میں زیادہ رقوم ادا کرنی پڑ رہی ہیں۔
اس وجہ سے کرایوں میں اضافہ ناگزیر ہے، کیونکہ یہ کوئی معمول کی کمرشل پروازیں تو ہیں نہیں، بلکہ یہ خصوصی یا چارٹر پروازوں کے طور پر چل رہی ہیں۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ کرائے مناسب ہونے چاہئیں، تاکہ عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔
پی آئی اے کی پروازیں معطل کیے جانے کے حوالے سے سوال پر پاکستانی سفیر نے کہا کہ ان کی افغانستان کے وزیرہوابازی اوران کے محکمے سے میٹنگ ہوئی ہے ''اور ہم کوشش کر رہے ہیں کے کرایوں کو ایک حد سے آگے نہ جانے دیں''۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے شہری ہوا بازی کے محکموں کے درمیان جو معاہدہ ہے اس کے تحت پروازیں چلائی جا سکیں اور کرایہ بھی مناسب ہو اور دونوں فریق جلد از جلد پروازوں کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں۔
سابق سفیر صادق خان کی ٹوئٹ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اب تک بیشتر تجارت زمینی راستوں سے ہوتی تھی اور اب فضائی راستوں کے ذریعے بھی افغانستان کے لئے سامان کی ترسیل کی جا سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس فضائی راستے کو دوسرے ممالک بھی استعمال کر سکیں گے، لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نظام کے پوری طرح فعال ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔
پاکستانی سفیر نے بتایا کہ پاکستان نے افغانستان کی قومی ایئر لائن آریانا کو بھی کابل اور اسلام آباد کے درمیان ہفتے میں دو پروازوں کے اجراء کی اجازت دی ہے۔
اکتوبر میں روس میں افغانستان سے متعلق ہونے والی کانفرنس کے بارے میں انھوں نے کہا کہ روس افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں بہت فعال رہا ہے اور وہ دو اجلاس منعقد کرنا چاہتا ہے۔ اوّل تو اگر امریکی بھی شرکت پر رضامند ہوں تو وہ ٹرائکا پلس کی میٹنگ کرنا چاہے گا۔ اس کے علاوہ، انھوں نے بتایا کہ ماسکو فارمیٹ کی میٹنگ کرنا چاہتا ہے جس میں خطے کے ممالک شامل ہوں اور افغانستان بھی اعلیٰ سطح پر ان میں شرکت کرے گا۔
اس اجلاس میں نائب وزیر اعظم افغان وفد کی قیادت کریں گے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس طرح افغانستان کا دوسرے ملکوں سے رابطہ ہو گا اور دنیا کے ان سے جو مطالبات ہیں ان کے پیش نظر ایک پالیسی وضع کی جا سکے گی۔ ایسا کرنا افغانستان میں دیرپا امن کے لئے بھی معاون ہو گا اور افغنستان کے دوسرے ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے سلسلے میں بھی کارآمد ہو گا۔
پاکستان کے رویے سے لوگوں میں مایوسی پھیل رہی ہے، سابق افغان رکن پارلیمنٹ
افغانستان کے ایک سابق رکن پارلیمنٹ انجینئر کمال نے وائس امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب تو افغانستان میں ایک بڑا انقلاب آ چکا ہے اور دوسری جانب پاکستان نے، جس سے لوگوں کی بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔ بقول ان کے، پاکستان نے اپنے سارے راستے بند کر دیئے ہیں۔
اس صورت حال میں، ان کے بقول،''لوگوں میں مایوسی ہے اور وہ غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہیں؛ اور نہیں جانتے کہ آئندہ کیا ہو گا''۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف پاکستان سے افغان باشندوں کے تاریخی رشتے ہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں کسی بھی پڑوسی ملک کے مقابلے میں افغانوں کا سب سے زیادہ انحصار پاکستان پر ہے؛ اور جب ہاکستان نے اپنے راستے بند کیے تو لوگ پریشان ہیں۔
انجینئر کمال نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ علاج معالجے کے لئے یا اپنی دوسری ضرورتوں کے لئے ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں، وہ ہوائی جہاز کے کرایوں میں بے پناہ اضافے کے باعث سفر کرنے سے قاصر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایک تو ویسے ہی معاشی حالات خراب ہیں اوپر سے فضائی ٹکٹوں کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے؛ اور اب تو پروازیں بھی معطل ہیں اور افغان جو پاکستان سے بہت زیادہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے، ان پر بہت منفی اثر پڑ رہا ہے۔
انجینئر کمال نے مزید کہا کہ اس وقت افغانستان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری سے جڑا ہوا نہیں ہے اور اکیلا رہ گیا ہے۔ اس صورت حال میں، پڑوسی ملکوں خاص طور پر پاکستان کا رول بہت اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کو پاکستان سے یہی امید ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔