افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے باوجود ان کی حکومت کو پاکستان سمیت ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا اور طالبان خود کو تسلیم کرانے کے لئے بہت کوششیں بھی کر رہے ہیں، لیکن ابھی بظاہر کامیاب ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ دوسری جانب، پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے آثار واضح ہیں، جس کا، بہت سے لوگوں کے خیال میں، طالبان پر بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی گزرگاہیں بند ہیں۔ سامان تجارت سرحدوں کے آر پار نہ آنے جانے کے سبب دونوں ملکوں کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایر لایئنز کی افغانستان کے لئے پروازیں معطل ہیں جس سے ہزاروں لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کا مستقبل کیا ہے، اس بارے میں ماہرین کی آراء میں کچھ زیادہ اختلاف نظر نہیں آتا۔
ڈاکٹر مارون وائن بام افغان امور کے ایک ماہر اور امریکہ کے مڈ ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان پاکستان کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے۔
پاکستان نے، بقول ان کے، افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے، اور اس کا خیال تھا کہ طالبان پر اس کا اب بھی اتنا ہی اثر و رسوخ ہے جتنا 20 برس پہلے تھا۔ لیکن، طالبان اگر اقتدار میں قابل اطمینان صورت حال میں ہوں تو وہ پاکستان کو نظر انداز کرنے کے لئے بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اور یہ ہی صورت حال اس وقت ہے۔ اور ہاکستان کو فی الحال اسی صورت حال کے ساتھ رہنا ہو گا۔
مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں دنیا کو دکھانے کے لئے ایک جامع حکومت چاہتا تھا۔ لیکن پاکستان کے اثر و رسوخ اور پاکستان کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں کے دوروں کے باوجود طالبان نے اپنی تشریح کی جامع حکومت بنائی اور ہاکستان کو نظر انداز کیا۔ چنانچہ، تعلقات کی نوعیت بہت پیچیدہ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ پاکستان افغانوں کو for granted نہیں لے سکتا۔ اس لئے کہ طالبان کا اپنا ایک 'مائنڈ سیٹ' ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ پاکستان نے کر کے دیا۔ یہ سوچ غلط ہے۔ اور یہ سوچ بھی غلط ہے کہ چونکہ طالبان کو پاکستان کی ضرورت ہے، اس لئے پاکستان جو چاہے ان سے کروا سکتا ہے۔
ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ اکثر موقعوں پر طالبان نے پاکستان سے آزاد یا الگ سوچ کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا طالبان پر اب کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے، ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ طالبان کو معاشی اور سیاسی طور ہر پاکستان کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ اس وقت بالکل تنہا رہ گئے ہیں۔ پاکستان تک نے انہیں سفارتی طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ وہ اس وقت تسلیم کرے گا جب کم از کم خطے کے دوسرے ممالک اسے تسلیم کر لیں گے۔ چنانچہ، دونوں ہی فریق اس وقت ایک دوسرے کو for granted نہیں لے رہے ہیں۔ یا یہ نہیں سمجھتے کہ وہ ایک دوسرے سے جو چاہیں گے منوا لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کی قیادت اپنی خود مختاری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اور بقول ان کے، جب یہ قیادت پاکستان میں قیام پذیر ہوتی ہے تو اس پر پاکستان کا گہرا اثر و رسوخ ہوتا ہے اور جب یہی قیادت کابل اور قندھار منتقل ہو جاتی ہے تو ان پر پاکستان کا اثر کم ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ دونوں کے درمیان 'ورکنگ ریلیشن شپ' اس لئے بھی ضروری ہے، کیونکہ افغانستان ایسے میں کامیاب نہیں ہو سکتا کہ پاکستان کے ساتھ اس کی سرحدوں پر کشیدگی ہو۔ لیکن اس کی بھی ایک حد ہے جو پاکستان ان سے حاصل ہونے کی توقع کر سکتا ہے۔
سیکیورٹی امور کے ماہر اور تجزیہ کار، بریگیڈیر عمران ملک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت طالبان کے پاس مختلف شعبوں میں ماہرین کی شدید قلت ہے اور مختلف سطحوں پر مختلف محکموں میں جو لوگ کام کر رہے ہیں، وہ عالمی سطح پر مسائل سے نمٹنے کے طریقہ کار اور آداب سے قطعاً ناواقف ہیں۔
بقول ان کے، نا تجربہ کاری کی بنا پر وہ جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں۔ اور یہ معاملات نچلی سطح پر ہو رہے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ سطح کے طالبان عہدیداروں نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا جس سے یہ اشارہ ملے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں رکھنا چاہتے۔
بریگیڈیر عمران ملک نے کہا کہ طالبان قیادت کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ افغانستان کو معاشی اور سیاسی طور پاکستان کی زیادہ ضرورت ہے نہ کہ ہاکستان کو افغانستان کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی بد اعتمادی ہو، کیونکہ ان حالات میں جب کہ طالبان دنیا سے خود کو منوانے کی کوشش میں ہیں اور پاکستان ان کی کوششوں میں بھرپور مدد بھی کر رہا ہے، طالبان پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے۔