اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے ناظم العمور کو دفتر خارجہ طلب کر کے کنڑ اور نورستان صوبوں سے ہفتہ کی صبح پاکستانی سرحدی چیک پوسٹوں پرعسکریت پسندوں کے مہلک حملے پرحکومت پاکستان نے شدید احتجاج کرتے ہوئے دہشت گردوں کی ان دراندازیوں کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کو ایسے حملوں کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی اور توقع ہے کہ نیٹو افواج اورافغان حکام ان دونوں سرحدی صوبوں میں عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں سے سرحد پارحملوں کوروکنے کے لیے موثر اقدامات کریں گے۔ ’’دہشت گردوں کی یہ سرگرمیاں افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں اورعوام دونوں کے لیے باعث تشویش ہیں۔‘‘
پاکستانی فوج نے کہا ہے کہ ہفتہ کی صبح افغان صوبوں کنڑاور نورستان کی طرف سے آنے والے لگ بھگ تین سو مسلح عسکریت پسندوں نے چترال میں فرنٹیرکور کی سات چیک پوسٹوں پر اچانک حملہ کر کے کم از کم پچیس پاکستانی سرحدی محافظوں کوہلاک کردیا۔ ’’ سرحدی چیک پوسٹوں کا دفاع کرنے والے اہلکاروں نے جوابی کارروائی کر کے بیس حملہ آوروں کو ہلاک کردیا جبکہ عسکریت پسندوں نے دو پوسٹو ں پربھی قبضہ کر لیا تھا۔‘‘
فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ان سرحدی چوکیوں کو مزید محفوظ بنانے کے لیے تازہ دم دستے علاقے کی طرف راوانہ کر دیے گئے ہیں۔’’ حملے میں ملوث دہشت گردوں کا تعلق سوات، دیر اور باجوڑ سے تھا جنہیں مفرور طالبان کمانڈرز مولوی فقیرمحمد اورفضل اللہ نے افغان جنگجووں کی مدد سے چترال میں چیک پوسٹوں پر حملے کے لیے منظم کیا تھا۔‘‘
پاکستانی فوج نے ایک بارپھر الزام لگایا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے آپریشنز سے فرار ہونے والے دہشت گردوں نے سرحد پار افغانستان کے کنڑ اور تورستان صوبوں میں مبینہ طور پر افغان حکام کی مدد سے اپنے آپ کو دو بارہ منظم کر لیا ہے۔
’’ان سرحدی صوبوں میں نیٹو اورافغان افواج کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے جس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردوں نے پاکستان کی سرحدی چوکیوں اور دور دراز سرحدی دیہاتوں پر حالیہ دنوں میں بار بار حملے کیے ہیں۔‘‘
فوجی حکام نے کہا ہے کہ کنڑ اور نورستان میں دہشت گردوں کی بڑی تعداد میںموجودگی کے بارے میں افغان اور نیٹو افواج کو گزشتہ ایک سال کے دوران ٹھوس خفیہ معلومات فراہم کی گئی ہیں لیکن ان عناصر کے خلاف کوئی قابل ذکر کارروائی نہیں کی گئی ہے اورپاکستان کی سرحدی چوکیوں پرعسکریت پسندوں کے حملے بھی بلا روک ٹوک جاری ہیں۔
گزشتہ سال بھی چترال میں سرحد پار سے شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا جبکہ رواں برس جون اور جولائی میں افغانستان کے سرحدی علاقوں میں چھپے جنگجوؤں نے دیر اور باجوڑ کے علاقوں میں مقامی لوگوں اور سکیورٹی فورسز پر ہلاکت خیز حملے کیے تھے۔