پاکستان کی فوج نے افغان سرحد کے پار گولہ باری کرنے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے جواباً الزام لگایا ہے کہ حالیہ دنوں میں افغانستان کی جانب سے دراندازی کرنے والے سینکڑوں عسکریت پسندوں کے حملوں میں سکیورٹی فورسز کو بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا یہ حملے ضلع دیر اور قبائلی علاقوں باجوڑ اور مہمند میں کیے گئے۔
”افغانستان کی جانب سے پچھلے ایک مہینے کے اندر پانچ بڑے حملے ہوئے ہیں جن میں دو سو سے تین سو جنگجو سرحد عبور کر کے ہمارے علاقے میں آئے اور سرحدی چوکیوں پر حملہ کیا۔ اس میں ہمارے 55 کے قریب پیرا ملٹری، فرنٹیئرکور اور لیویز کے اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں۔ جب کہ 70 سے زیادہ اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔“
افغان صدر حامد کرزئی نے ایک روز قبل کہا تھا کہ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران پاکستانی حدود سے داغے گئے 470 راکٹ افغان صوبوں کُنڑ اور ننگرہار کے سرحدی علاقوں میں گرے۔ افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ اس شدید گولہ باری سے 12 بچوں سمیت 36 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
جنرل اطہر عباس کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز پاکستان پر سرحد پار سے حملے کرنے والے شدت پسندوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
”اگر ان عسکریت پسندوں پر واپس جاتے ہوئے گولہ باری کرتے ہوئے حادثاتی طور پر کچھ گولے افغان سرحد کے اس پار گرے ہیں تو ایسا ممکن ہے۔ لیکن (پاکستان کی جانب سے) سرحد پار دانستہ طور پر کسی قسم کی فائرنگ نہیں کی گئی ہے۔“
فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے افغان حکام اور بین الاقوامی افواج ’ایساف‘ کو شدت پسندوں کے سرحد پار حملوں کے بارے میں آگاہ اور ان کے سدباب کے لیے کہا ہے۔
جنرل عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان، امریکہ اور افغان حکام پر مشتمل ’بارڈر کنٹرول سینٹرز‘ میں بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے، جب کہ آئندہ سہ فریقی کمیشن کے اجلاس میں بھی پاکستان اس پر بات کرے گا۔
افغانستان میں نیٹو افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل جوزف بلاٹز نے پیر کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کے دوران افغان دعوؤں کو ”الزامات اور اطلاعات“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اتحادی افواج فی الوقت ان کی تصدیق نہیں کر سکتی ہیں کیوں کہ مبینہ گولہ باری دور دراز علاقوں میں ہوئی ہے جہاں بین الاقوامی سکیورٹی فورسز موجود نہیں۔
تاہم بریگیڈیئر بلاٹز نے کہا کہ اس واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں اور کوئی ثبوت ملنے کی صورت میں اسے منظر عام پر لیا جائے گا۔
افغان حکام کے مطابق پاکستانی سرحد سے ملحقہ صوبوں کُنڑ اور ننگرہار سے نیٹو افواج کی واپسی کے بعد ان علاقوں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے طالبان جنگجو داخل ہو گئے ہیں۔
افغان ترجمان محمد ظاہر عظیمی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کی جانے والی گولہ باری کے جواب میں خوست اور پکتیکا میں تعینات افغان افواج نے بھی جمعہ کو کم از کم دو مرتبہ پاکستان کی حدود میں گولے داغے۔
صدارتی محل سے جاری کیے گئے ایک بیان میں ظاہر عظیمی کا کہنا تھا کہ ”اگر یہ (گولہ باری) پاکستان کی طرف سے نہیں کی جا رہی ہے تو پاکستان کو اس میں ملوث عناصر کی نشان دہی کرنی چاہیئے۔“
دریں اثنا پیر کو کابل میں پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور صدر حامد کرزئی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی سرحدی کشیدگی کا معاملہ زیر بحث آیا۔
ایک مختصر سرکاری بیان کے مطابق جنرل کیانی نے صدر کرزئی کو افغانستان کی سرحد کے راستے شدت پسندوں کی دراندازی پر پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا جب کہ افغان رہنما نے حالیہ ہفتوں میں ہونے والی مبینہ گولہ باری پر بات چیت کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر کرزئی نے افغان وزارت دفاع کو پاکستان کے الزامات کی تحقیقات کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان الزامات کا تبادلہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب منگل کو دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام اور امریکی نمائندے کابل میں سہہ فریقی اجلاس میں شرکت کریں گے جس میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمت اور ملک میں امن و استحکام کی کوششوں پر بات چیت کی جائے گی۔