پاکستان اور افغانستان کے عسکری عہدیداروں نے دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کے آرپار سکیورٹی کو بہتر بنانے اور تعاون کو مربوط کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ افغان نیشنل آرمی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمد شریف یفتلی نے آٹھ رکنی وفد کے ہمراہ پشاور کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمن سے ملاقات کی۔
دونوں عسکری عہدیداروں نے دوطرفہ سرحدی اور سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
پاکستان ایک عرصے سے افغانستان سے یہ مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ سرحد پر اپنی جانب نگرانی کا نظام موثر بنائے تاکہ عسکریت پسندوں کی سرحد کے آرپار نقل وحرکت کو روکا جا سکے۔
جون 2014ء میں پاکستانی فوج نے افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی تھی اور حکام کے بقول بہت سے دہشت گرد اس آپریشن کی وجہ سے فرار ہو کر افغان علاقوں میں چلے گئے تھے۔
دونوں ملکوں کے عسکری عہدیداروں کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب رواں ماہ ہی چارسدہ میں باچاخان یونیورسٹی پر ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد پاکستانی فوج نے افغان قیادت کو معلومات فراہم کی تھیں کہ اس حملے افغان سرزمین سے کنٹرول کیا گیا۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار اور قبائلی علاقوں کے سابق سیکرٹری محمود شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے رابطوں کے جاری رہنے سے سرحد پر سلامتی کے اقدام کے لیے راہ ہموار ہوگی۔
"ایک مرتبہ آپ شروع کرتے ہیں تو آہستہ آہستہ اس میں بہتری آتی ہے یہ سرحد (پاک افغان) جو ہے ہمارے ساتھ جو بھارت کی سرحد ہے اس سے چھوٹی ہے جب وہاں ہم ایک پرندے کوآنے نہیں دیتے یا جانے نہیں دیتے دونوں ممالک، تو پھر یہاں پر کیوں نہیں ہو سکتا۔ ایک مرتبہ جب ہم مرکزی مقامات ہیں اس کے داخلے پر پابندی لگانا شروع کریں گے تو جو چھوٹے چھوٹے راستے ہیں ان پر بھی کنٹرول آ جائے گا وقت کے ساتھ۔"
یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں امریکی اور بین الاقوامی افواج کی قیادت کے لیے نامزد کردہ امریکی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جان مک نکولسن نے بھی رواں ہفتے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر باہمی تعاون میں بہتری انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں، اتحادی افواج کی پیش رفت کو برقرار رکھنے اور سرحدی تحفظ کے لیے بہت اہم ہے۔