پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں شائع ہوئی تھیں کہ نواز شریف اور صدر کرزئی نے ترکی یا سعودی عرب میں طالبان کا سیاسی دفتر کھلوانے کے ممکنات پر ’’فوری بنیادوں‘‘ پر غور کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
پاکستان نے اُن قیاس آرائیوں کی صریحاً تردید کی ہے کہ وہ اپنے ہاں یا کسی دوسرے ملک میں افغان طالبان کا دفتر کھلوانے کے معاملے پر کابل سے رابطے میں ہے۔
وزیرِ اعظم نوازِ شریف اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے مابین گزشتہ ہفتے کابل میں ملاقات کے بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں شائع ہوئی تھیں کہ دونوں رہنماؤں نے ترکی یا سعودی عرب میں طالبان کا سیاسی دفتر کھلوانے کے ممکنات پر ’’فوری بنیادوں‘‘ پر غور کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
تاہم شائع شدہ خبر کے مطابق افغانستان کی اس تجویز پر شائستہ انداز میں انکار کر دیا گیا کہ مجوزہ دفتر پاکستان میں کھلوایا جائے۔
پاکستانی وزرتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے اسلام آباد میں جمعرات کو نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں ان قیاس آرائیوں کا علم ہے۔
’’(لیکن) یہ محض ذرائع ابلاغ کی خبریں ہیں، حیقیت میں کوئی فعال تجویز (زیرِ غور) نہیں ہے۔‘‘
اعزاز احمد چودھری نے افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے وفد کی گزشتہ ماہ دورہِ پاکستان کے دوران طالبان کے سابق نائب امیر ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی بلواسطہ تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں اس کے نتائج کا علم نہیں لیکن یہ مصالحتی عمل میں پیش رفت کرنے کی کوششوں کا حصہ تھی۔
افغانستان کو امن و مصالحت کی کوششوں میں اپنی بھرپور حمایت کی یقین دہانی کرواتے ہوئے پاکستان تقریباً ایک سال کے عرصہ میں کم از کم 34 طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہے، جو بظاہر قیام امن میں کچھ کردار ادا کر سکتے ہیں۔
وزیرِ اعظم نوازِ شریف اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے مابین گزشتہ ہفتے کابل میں ملاقات کے بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں شائع ہوئی تھیں کہ دونوں رہنماؤں نے ترکی یا سعودی عرب میں طالبان کا سیاسی دفتر کھلوانے کے ممکنات پر ’’فوری بنیادوں‘‘ پر غور کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
تاہم شائع شدہ خبر کے مطابق افغانستان کی اس تجویز پر شائستہ انداز میں انکار کر دیا گیا کہ مجوزہ دفتر پاکستان میں کھلوایا جائے۔
پاکستانی وزرتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے اسلام آباد میں جمعرات کو نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں ان قیاس آرائیوں کا علم ہے۔
’’(لیکن) یہ محض ذرائع ابلاغ کی خبریں ہیں، حیقیت میں کوئی فعال تجویز (زیرِ غور) نہیں ہے۔‘‘
اعزاز احمد چودھری نے افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے وفد کی گزشتہ ماہ دورہِ پاکستان کے دوران طالبان کے سابق نائب امیر ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی بلواسطہ تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں اس کے نتائج کا علم نہیں لیکن یہ مصالحتی عمل میں پیش رفت کرنے کی کوششوں کا حصہ تھی۔
افغانستان کو امن و مصالحت کی کوششوں میں اپنی بھرپور حمایت کی یقین دہانی کرواتے ہوئے پاکستان تقریباً ایک سال کے عرصہ میں کم از کم 34 طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہے، جو بظاہر قیام امن میں کچھ کردار ادا کر سکتے ہیں۔