اسلام آباد —
پاکستان نے افغانستان میں امن و استحکام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری کو جنگ سے تباہ حال اس ملک کی تعمیر نو اور اقتصادی ترقی میں معاونت ہر صورت جاری رکھنا ہو گی۔
پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف نے اپنے موجودہ دورِ حکومت میں ہفتہ کو افغانستان کا پہلا دورہ کیا، جہاں دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح پر بات چیت کے علاوہ نواز شریف اور افغان صدر حامد کرزئی نے عیلحدگی میں بھی ملاقات کی۔
کابل میں صدارتی محل میں حامد کرزئی کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں پاکستانی وزیرِ اعظم نے کہا کہ افغانستان فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے کیوں کہ آئندہ برس افغان عوام کو ’’اپنی قسمت کا خود مالک‘‘ بننے کے لیے اہم فیصلے کرنے ہیں۔
’’ہر شخص کو (اس بات کا) ادراک ہے کہ 2014ء میں موقعوں کی دستیابی کے ساتھ کٹھن چیلنجوں کا بھی سامنا ہو گا۔ لہٰذا یہ ہر کسی کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں سلامتی سے متعلق ذمہ داریوں اور سیاسی اقتدار کی منتقلی کا عمل پر ممکن حد تک پُرامن انداز میں مکمل ہو۔‘‘
نواز شریف نے کہا کہ ’’تنازع کے تباہ کن تسلسل‘‘ کو ختم کرنا ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں مصالحتی عمل کو معنی خیز انداز میں آگے بڑھانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کا وقت آن پہنچا ہے۔
’’ہمارے (پاکستان کے) خیال میں افغانستان میں 2014ء اور اس کے بعد بھی پائیدار امن کی کنجی (تمام دھڑوں کی شمولیت کے ساتھ) سیاسی حل ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان نے افغانوں کی قیادت میں جاری مصالحتی عمل کی تندہی سے حمایت کی ہے۔‘‘
پاکستانی وزیرِ اعظم نے صدر کرزئی کی تشکیل کردہ اعلیٰ امن کونسل کے سر پرستی میں جاری امن و مصالحت کے عمل میں اپنے ملک کے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ خطے میں دیگر ممالک بھی افغانستان میں استحکام کی غرض سے جاری کوششوں میں اضافہ کریں۔
پاکستان کی جانب سے ستمبر میں رہا کیے گئے افغان طالبان کے سابق نائب امیر ملا عبدالغنی برادر سے متعلق سوال پر نواز شریف نے کہا کہ اس معاملے پر اُنھوں نے صدر کرزئی کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
’’ملا برادر کو رہا کیا جا چکا ہے ... ہم نے ایک طریقہ کار پر اتفاق کیا ہے جس پر موزوں انداز میں عمل درآمد کیا جائے گا۔ صدر (کرزئی) کی طرف سے جس کسی کو بھی ملا برادر سے بات چیت کے لیے پاکستان بھیجا جائے گا ... ہم ان کی ملاقات کو یقینی بنائیں گے۔‘‘
صدر کرزئی نے صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی و انتہاپسندی پر مل کر قابو پایا جا سکتا ہے۔
’’جن اُمور پر تبادلہ خیال کیا گیا اُن میں امریکہ، پاکستان اور افغانستان کی جانب سے وہ ممکنہ اقدامات بھی شامل ہیں جن سے خطے میں قیام امن میں مدد ملے گی۔‘‘
پاک افغان تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ اُنھوں نے دو طرفہ تجارت اور اقتصادی شراکت داری کو ہمیشہ اہمیت دی ہے اور صدر کرزئی سے ملاقات میں بھی اس سلسلے میں مربوط تعلقات کی جانب پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
’’علاقائی تناظر میں تجارت، توانائی اور مواصلات ہمارے اقتصادی شراکت داری کے ایجنڈے کا لازمی جز ہیں۔‘‘
پاکستان کی طرف سے فراہم کی گئی زمینی راہ داری خشکی سے گھرے افغانستان کی تجارت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق دورہِ کابل کے دوران نواز شریف نے اعلیٰ امن کونسل کے مقتول سربراہ کی صاحب زادی فاطمہ ربانی، سابق وزیرِ خارجہ عبداللہ عبداللہ اور حزبِ اسلامی کے رہنما قطب الدین ہلال سے بھی ملاقاتیں کیں۔
پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف نے اپنے موجودہ دورِ حکومت میں ہفتہ کو افغانستان کا پہلا دورہ کیا، جہاں دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح پر بات چیت کے علاوہ نواز شریف اور افغان صدر حامد کرزئی نے عیلحدگی میں بھی ملاقات کی۔
کابل میں صدارتی محل میں حامد کرزئی کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں پاکستانی وزیرِ اعظم نے کہا کہ افغانستان فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے کیوں کہ آئندہ برس افغان عوام کو ’’اپنی قسمت کا خود مالک‘‘ بننے کے لیے اہم فیصلے کرنے ہیں۔
’’ہر شخص کو (اس بات کا) ادراک ہے کہ 2014ء میں موقعوں کی دستیابی کے ساتھ کٹھن چیلنجوں کا بھی سامنا ہو گا۔ لہٰذا یہ ہر کسی کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں سلامتی سے متعلق ذمہ داریوں اور سیاسی اقتدار کی منتقلی کا عمل پر ممکن حد تک پُرامن انداز میں مکمل ہو۔‘‘
نواز شریف نے کہا کہ ’’تنازع کے تباہ کن تسلسل‘‘ کو ختم کرنا ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں مصالحتی عمل کو معنی خیز انداز میں آگے بڑھانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کا وقت آن پہنچا ہے۔
’’ہمارے (پاکستان کے) خیال میں افغانستان میں 2014ء اور اس کے بعد بھی پائیدار امن کی کنجی (تمام دھڑوں کی شمولیت کے ساتھ) سیاسی حل ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان نے افغانوں کی قیادت میں جاری مصالحتی عمل کی تندہی سے حمایت کی ہے۔‘‘
پاکستانی وزیرِ اعظم نے صدر کرزئی کی تشکیل کردہ اعلیٰ امن کونسل کے سر پرستی میں جاری امن و مصالحت کے عمل میں اپنے ملک کے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ خطے میں دیگر ممالک بھی افغانستان میں استحکام کی غرض سے جاری کوششوں میں اضافہ کریں۔
پاکستان کی جانب سے ستمبر میں رہا کیے گئے افغان طالبان کے سابق نائب امیر ملا عبدالغنی برادر سے متعلق سوال پر نواز شریف نے کہا کہ اس معاملے پر اُنھوں نے صدر کرزئی کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
’’ملا برادر کو رہا کیا جا چکا ہے ... ہم نے ایک طریقہ کار پر اتفاق کیا ہے جس پر موزوں انداز میں عمل درآمد کیا جائے گا۔ صدر (کرزئی) کی طرف سے جس کسی کو بھی ملا برادر سے بات چیت کے لیے پاکستان بھیجا جائے گا ... ہم ان کی ملاقات کو یقینی بنائیں گے۔‘‘
صدر کرزئی نے صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی و انتہاپسندی پر مل کر قابو پایا جا سکتا ہے۔
’’جن اُمور پر تبادلہ خیال کیا گیا اُن میں امریکہ، پاکستان اور افغانستان کی جانب سے وہ ممکنہ اقدامات بھی شامل ہیں جن سے خطے میں قیام امن میں مدد ملے گی۔‘‘
پاک افغان تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ اُنھوں نے دو طرفہ تجارت اور اقتصادی شراکت داری کو ہمیشہ اہمیت دی ہے اور صدر کرزئی سے ملاقات میں بھی اس سلسلے میں مربوط تعلقات کی جانب پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
’’علاقائی تناظر میں تجارت، توانائی اور مواصلات ہمارے اقتصادی شراکت داری کے ایجنڈے کا لازمی جز ہیں۔‘‘
پاکستان کی طرف سے فراہم کی گئی زمینی راہ داری خشکی سے گھرے افغانستان کی تجارت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق دورہِ کابل کے دوران نواز شریف نے اعلیٰ امن کونسل کے مقتول سربراہ کی صاحب زادی فاطمہ ربانی، سابق وزیرِ خارجہ عبداللہ عبداللہ اور حزبِ اسلامی کے رہنما قطب الدین ہلال سے بھی ملاقاتیں کیں۔