وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کا مشترکہ دشمن ہے جس کے خاتمے کے لیے بہتر تعاون ضروری ہے۔
یہ بات انھوں نے ہفتہ کو افغانستان کے صدر اشرف غنی سے گفتگو میں کہی جنہوں نے نواز شریف کی خیریت دریافت کرنے کے لیے انھیں فون کیا تھا۔
پاکستانی وزیراعظم لندن میں اپنے دل کے آپریشن کے بعد حال ہی میں وطن واپس پہنچے ہیں۔
وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق افغان صدر کا کہنا تھا کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر مہلک ترین دہشت گرد حملے کے منصوبہ ساز عمر خراسانی کو چند دن قبل افغانستان میں اتحادی فورسز کی کارروائی میں چار دیگر ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا گیا۔
ان کے بقول اسکول پر حملہ پاکستان اور دنیا کے لیے ایک بڑا سانحہ تھا اور اس کے ذمہ داران اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئے۔
رواں ہفتے افغان صوبے ننگرہار میں ایک ڈرون حملے میں شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں عمر نرے عرف عمر خراسانی بھی مارا گیا تھا۔ پاکستانی حکام یہ کہتے آئے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا یہ کمانڈر افغانستان میں رہتے ہوئے پاکستان میں مہلک حملوں کی منصوبہ بندی کرتا رہا ہے۔
16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے میں 150 کے لگ بھگ افراد موت کا شکار ہوئے تھے جن میں ایک سو سے زائد طالب علم بھی شامل تھے۔
بیان کے مطابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے افغان سرزمین پر تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے پر افغان صدر کا شکریہ ادا کیا۔
انھوں نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خاتمے کے پاکستانی عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ ملک سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے کو افغان صدر غنی نے پولینڈ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران پاکستان پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان کے ملک میں مصالحتی کوششوں کے سلسلے میں کروائی گئی یقین دہانیوں پر کاربند نہیں اور ان کے بقول وہ اچھے اور برے دہشت گردوں کے درمیان تمیز جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان نے صدر غنی کے اس بیان کو حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بغیر کسی تفریق کے تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے۔
افغان عہدیدار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے ہاں موجود افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو نشانہ نہیں بنا رہا جب کہ پاکستان کو یہ گلہ رہا ہے کہ پاکستانی طالبان نے افغان علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے اور افغانستان ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا۔
سرحد کی نگرانی کے امور سمیت افغانستان میں مصالحتی کوششوں میں پیش رفت نہ ہونے کے باعث بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں حالیہ ہفتوں کے دوران کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
مبصرین یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی الزام تراشی اور بیان بازی دونوں ملکوں اور خطے کے امن کے لیے مفید نہیں ہوگی اور اعتماد کی بحالی کے لیے اعلیٰ سطحی رابطے بہت اہم ہیں۔