ایڈ ز کے عالمی دن کے موقع پر محکمہ صحت کے حکام نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں ایچ آئی وائرس اور ایڈز کے شکار افراد اب بھی اس بیماری کا ذکر کرنے سے کتراتے ہیں جس کے باعث نہ صرف وہ خود علاج سے دور رہتے ہیں بلکہ وہ اس بیماری کو دوسرے افراد تک منتقل کرنے کا سبب بھی بن رہے ہیں ۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مینجرڈاکٹر ساجد احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا اُن کے ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں 97400 ایسے مریض ہیں جو ایچ آئی وی اور ایڈز کا شکار ہیں لیکن ان میں سے رجسٹر ڈ مریضوں کی تعداد محض چار ہزار ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کی آگاہی مہم اور کوششوں کے باوجود اب بھی لوگ ڈر اور خوف کے باعث اس بیماری کا نہ تو اپنے معالج اور نہ ہی اہل خانہ سے اظہار کرتے ہیں جس کے باعث اس مرض میں مبتلا افراد کی رجسٹریشن میں حکومت کواب تک وہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے جس کے لیے وہ کوشاں ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق ملک میں 14 ایسے خصوصی مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں ایچ آئی وی اور ایڈز میں مبتلا افراد کی تشخیض اور اُنھیں علاج مہیا کیا جاتا ہے۔ ایڈز سے بچاؤ کے خصوصی پاکستانی ادار ے کے عہدیداروں کا کہنا ہے پاکستان میں اس مرض کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ نشے کے عادی افراد میں استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال بتائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ساجد احمد کا کہنا ہے کہ نیشنل ایڈ ز کنٹرول پروگرام کے لیے عالمی بینک کی طرف سے اعلان کردہ امداد میں تاخیر کی وجہ سے بھی اس ادارے کی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔
ایڈز کے مریضوں کا بھی کہنا ہے کہ اب بھی اُنھیں معاشرے میں حقار ت کی نگا ہ سے دیکھا جاتاہے ۔ ایچ آئی وی وائرس کا شکار پلوشہ نامی ایک خاتون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوگ اُنھیں دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں اور کوئی بھی اُن سے تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔
محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اسی رویے میں تبدیلی اور اس مرض سے متعلق آگاہی پھیلانا اُن کا ہدف ہے اور اس کام میں وہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو شریک سفر کرنا چاہتے ہیں۔